اغوا شدہ بچے کہیں حکومت ہی نہ گرا دیں


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3b4\"

لاہور میں جس شخص سے بھی ملیں وہ یہی کہتا ہے کہ اس کے قریبی علاقے میں پچھلے ایک دو دن میں  بچے اغوا ہونے کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ ہمارے علاقے کے گھریلو ملازمین کا نیٹ ورک بھی یہی اطلاعات لا رہا ہے اور وہ واقعی شدید خوفزدہ ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو گھروں میں تالے لگا کر کام پر نکل رہے ہیں۔

حکومت کہتی ہے کہ بچوں کے اغوا کا معاملہ سنگین نہیں ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب کا ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس میں ایک ماں اپنے بچے سے لپٹی ہوئی ہے اور اوپر کونے میں میاں شہباز شریف خوشی سے نہال ہوئے انہیں دیکھ رہے ہیں۔ اشتہار میں لکھا ہوا ہے کہ 2016 کے سال میں 3420 گمشدہ اور گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کو پنجاب کا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو اب تک گھر پہنچا چکا ہے۔

\"punjab-ad-children-kidnapping\"

اشتہار دعوی کرتا ہے کہ اس سال اب تک صوبہ بھر سے 681 بچے لاپتہ ہوئے، جب میں زیادہ تر بچے گھریلو ماحول کی وجہ سے فرار ہوئے تھے جن میں سے 587 کو پولیس والے پکڑ کر واپس گھر چھوڑ آئے ہیں، جبکہ 94 بچوں کی تلاش جاری ہے۔ لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف صاحب کا بیان حکومت پنجاب نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ڈالا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ پنجاب سے کل 767 بچے غائب ہوئے تھے جن میں سے 603 واپس آ گئے ہیں۔ ان میں سے 119 کو پولیس نے ریکور کیا، اور 45 کیس ہیں جن میں بچے ابھی تک مسنگ ہیں۔ دونوں کے اعداد و شمار میں 81 بچوں کا فرق ہے، پنجاب حکومت کا اشتہار درست نمبر بتا رہا ہے یا پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی درست نمبر بتا رہے ہیں؟

چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ڈائریکٹر جنرل کا ویڈیو بیان بھی اسی جگہ ڈالا گیا ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ بچے خود ہی بھاگ شاگ جاتے ہیں، اور والدین ان کے اغوا کی رپورٹ درج کروا دیتے ہیں۔ جب پروٹیکشن بیورو والے ان کو واپس گھر چھوڑ کر جاتے ہیں تو والدین ان کی بازیابی کی اطلاع نہیں دیتے ہیں اس لیے گمشدگی کی اتنی زیادہ ایف آئی آر موجود ہیں۔ ابھِی پچھلے دنوں ہی انہوں نے چار بچے واپس گھر پہنچائے ہیں جن میں سے ایک پتوکی، ایک نارنگ منڈی اور دو لاہور کے تھے۔ ممکن ہے کہ ان سات ماہ میں پنجاب سے کل 94 بچے ہی اغوا ہوئے ہوں، ممکن ہے کہ پچاس ہوئے ہوں، مگر یہ بھِی ایک بڑا نمبر ہے۔

اہم چیز یہ ہے کہ پنجاب میں بالخصوص اور لاہور میں بالعموم ایک خوف کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ حکومت کے بیانات پر اب عام آدمی یقین نہیں کرتا ہے۔ جس طرح دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے، نوٹس لینے، مجرموں کو کیف کردار تک پہنچانے والے بیانات گزشتہ کئی دہائیوں سے آتے رہے ہیں تو عوام ان بیانات کو ایک لطیفے سے بڑھ کر حیثیت نہیں دیتے ہیں۔ حکومت کے بنائے گئے کمیشن اور جے آئی ٹی (جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم) وغیرہ کو بھی محض کاغذی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ سے لے کر ماڈل ٹاؤن تک کتنے کمیشن اور کتنی انویسٹی گیشن ٹیمیں بنیں، ان کا کیا ہوا؟ عام آدمی نتائج دیکھتا ہے، اور عملی کارروائی نہ دیکھ کر پھر حکومت کے ان بیانات اور کمیشنوں کو محض حکومتی نااہلی کا اعتراف سمجھ کر اپنی رائے خود بناتا ہے۔

اس وقت گرمیوں کی چھٹیوں میں شہریوں کے خوف اور افواہوں کا یہ عالم ہے، تو پھر یہ سوچنا چاہیے کہ سکول کھلنے کے بعد خبروں اور افواہوں کا کیا حال ہو گا؟ اس وقت جس طرح عوام مبینہ اغوا کاروں کو پکڑ پکڑ کر مار پیٹ کر رہے ہیں، اس سے عوام کی ہیجانی کیفیت کا اندازہ ہو رہا ہے۔ روز یہ افواہیں سننے میں آتی ہیں کہ فلاں جگہ سے بچوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن کی آنکھیں، جگر اور گردے وغیرہ نکال کر ان کو مار دیا گیا تھا اور بچوں کے تحفظ کے لیے لوگوں میں جنون پیدا ہو جاتا ہے۔

\"child-kidnap\"

پورے لاہور پر خوف کی ایک گھٹا چھائی ہوئی ہے اور عوام ہر خبر اور ہر افواہ پر یقین کر رہے ہیں۔ وہ یقین نہیں کرتے تو صرف حکومتی بیانات پر یقین نہیں کرتے ہیں۔ اس اہم معاملے میں ہی حکومت کے دو بیانات میں ہی اغوا شدہ بچوں کی تعداد میں فرق دیکھ لیں اور پھر سوچیں کہ حکومت کی بات پر کوئی کیوں اعتبار کرے؟ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو سامنے آ رہی ہیں جن میں بچوں کے اغوا کی کیمرہ فوٹیج پیش کی جا رہی ہیں اور حکومت کو جھوٹا ٹھہرا رہی ہیں۔

لوگوں کو گزشتہ سالوں کے گردہ فروشی کے سکینڈل بھِی یاد آتے ہیں جب ایسے کئی گروہ پکڑے جانے کی اطلاع آئی تھی جو کہ لوگوں سے گردے خرید کر دولت مند غیر ملکیوں کو لگاتے ہیں، اور ایسے کیس بھی سامنے آئے تھے جن میں غریب مزدوروں کو زبردستی پکڑ کر ان کے گردے نکال لیے گئے تھے۔ ایسی خبریں بھی تھیں جن میں غریب افراد کسی ایک عضو کے آپریشن کے لیے جاتے تھے اور بعد میں پتہ چلتا تھا کہ ان کا گردہ بھی غائب کیا جا چکا ہے۔ یہ سب خبریں ہم نے بہت سنی اور پڑھی ہیں، مگر ہم نے کبھی یہ نہیں سنا یا پڑھا کہ ایسے کسی مجرم کو کوئی سزا دی گئی ہو۔

پھر حکومت کا کیا بھرم رہ جاتا ہے کہ اس کی بات پر کوئی اعتبار کرے؟ زندہ انسانوں کے جسمانی اعضا نکالے اور فروخت کیے جا رہے ہیں، تو پھر بچوں کے بارے میں ایسی بات کی جائے تو لوگ کیوں اس بات پر اعتبار نہ کریں؟

جس طرح لوگ خوف کی حالت میں جنون کا شکار ہو رہے ہیں، اس کے بعد اچانک حکومت کے خلاف ہنگامے شروع ہو گئے تو بعید از امکان نہیں ہو گا۔ لوگوں کے لیے ان کے بچوں سے بڑھ کر کچھ قیمتی نہیں ہوتا ہے، اور اس معاملے میں بچوں کے اغوا اور قتل و غارت کی بنیاد پر ہی حکومت کے خلاف جذبات ابھر رہے ہیں۔

خواہ بچے حقیقتاً اغوا ہو رہے ہیں یا نہیں، حکومت کو بیان دینے کی بجائے کچھ کرتے دکھائی دینا چاہیے۔ کسی اہم شخص کی گاڑی \’اغوا\’ ہو جائے تو اس پر شہر بھر میں جنرل ہولڈ اپ ہو جاتا ہے اور ہر دو کلومیٹر کے بعد پولیس کا ناکا دکھائی دیتا ہے۔ اس وقت صرف عوام کو تسلی دینے کی خاطر ہی مہینے بھر کے لیے جنرل ہولڈ اپ کر لیا جائے تو لوگ کسی حد تک اطمینان کا احساس پائیں گے۔ پولیس کا گشت بڑھایا جائے۔ اذیت ناک بتیوں والی ڈالفن فورس جو کہ شہر کے ہر ڈرائیور کو دن میں بھی لشکارے مار کر اندھا کرتی پھر رہی ہے، اسے کچھ ایکٹو کیا جائے اور وہ شہریوں کو کچھ تسلی دے۔

ورنہ پھر اگر کوئی بچوں کو تحفظ دینے کے نام پر آ گیا تو پھر کیا ہو گا؟ کہیں خوف کی یہ فضا کوئی منظم انداز میں پیدا تو نہیں کر رہا ہے؟ اس فضا کو جاری رہنے دیا گیا تو پھر حکومت جانے پر لوگ سکھ کا سانس ہی لیں گے اور واقعی ایک مرتبہ پھر مٹھائیاں بٹتی دکھائی دیں گی۔ حکومت کو اس وقت عمران خان سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا کہ بچوں کے بارے میں شہریوں میں ابھرتے ہوئے احساس عدم تحفظ سے ہے۔ صرف حکومتی بیانات کافی نہیں ہیں، دکھائی دینے والے اقدامات کی ضرورت ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments