مدرسے میں جنسی ہراسانی پر مزاحمت کرنے والی نصرت جہاں کی المناک موت


کچھ ہفتے قبل بنگلہ دیش کی 19 سالہ نصرت جہاں رفیع کو اسلامی مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کے خلاف جنسی ہراسانی کی شکایت درج کروانے پر مٹی کا تیل چھڑک کر جلا دیا گیا۔ اس کے جسم کا اسی فی صدی جل گیا اور پھر چار دن بعد 10 اپریل کو وہ موت کی ابدی نیند سو گئی۔ پولیس نے اب تک پندرہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

یہ 27 مارچ کا دن تھا جب اس کے مدرسہ کے ہیڈ ماسٹرسراج الدولہ نے نصرت جہاں کو اپنے دفتر میں بلایا۔ جب اس نے اس کے جسم کو نازیبا طریقے سے چھوا تو وہ وہاں سے بھاگ گئی اور پولیس سٹیشن میں جا کر رپورٹ درج کروادی۔ ویڈیو ٹیپ کی ہوئی تفتیشی رپورٹ میں اس نے اس واقعے کی تمام تفصیل بیان کی۔ 6، اپریل کو اس نے سکول میں امتحان دینا تھا اس لئے وہ اپنے بھائی کو حفاظت کے لئے ساتھ لے گئی۔ بھائی کو سکول میں داخل نہیں ہو نے دیا گیا مگر کسی نے نصرت جہاں کو کہا کہ اس کی دوست کو پیٹا جا رہا ہے اس لئے وہ چھت پر آجائے۔

چھت پر برقعے پہنے مردوں نے اس کو کہا کہ وہ ہیڈ ماسٹر کے خلاف شکایت واپس لے لے۔ جب اس نے انکار کیا تو کچھ نے اس کو زمین پر دبائے رکھا اور اس پر مٹی کا تیل چھڑک کر اس کو نذر آتش کر دیا گیا۔

مردوں کے اس گروہ نے کوشش کی کہ اس واقعہ کو خود کشی کی صورت دے دی جائے۔ مگر وہ بچ گئی۔ جنسی حملوں اور ریپ کے عورتوں کا خو د کشی کرلینا ایسے ممالک میں عام رواج بن چکا ہے۔ جب اس کو یمبولینس میں ہسپتال لے جا یا جا رہا تھا تو اس نے بھائی کے فون پر اس اندوہ ناک واقعے کی تمام تفصیل ویڈیوریکارڈ کر وا دی۔ اس نے کچھ افراد کے نام بھی بتائے جو اس میں ملوث تھے۔

نصرت جہاں رفیع کی فیملی سے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم نے ڈھاکہ میں ملاقات کر کے ان کو یقین دلایا ہے کہ اس واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جا ئیگی۔ ہیڈ ماسٹر سراج الدولہ اس وقت پولیس کسٹڈی میں ہے۔ دیگرپندرہ افرا د کو بھی پولیس حراست میں لے لیا گیا ہے۔ نصرت جہاں کی نماز جنازہ اس کے گاؤں اتر چار سندیا میں ادا کی گئی۔ اس کے والد موسیٰ مانک نے کہا ہے کہ وہ تفتیش کی کارروائی سے مطمئن ہے مگر ان سب افراد پر مقدمہ جلد از جلد چلایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).