کوئٹہ، ہم آپ کے ساتھ ہیں


\"wisiبلوچستان والے ناراض رہتے ہیں۔ ہر دہائی میں ایک عسکری تحریک بھی اٹھا لیتے ہیں۔ وفاقی حکومت سے، آمروں سے ان کی لڑائی پرانی ہے۔ یہ اپنے وسائل پر اپنا حق مانگتے ہیں۔ اپنی بااختیار حکومت چاہتے ہیں۔ یہ لڑائی اپنی شکل بدلتی رہتی ہے۔ کبھی مدہم ہو جاتی ہے، کبھی شعلہ بھڑک اٹھتا ہے۔

اس مسلسل لڑائی کے باوجود ہم سب کو ایک بات جاننی ہے۔ ہماری مختصر سی تاریخ میں کوئی ایک موقع بھی ایسا نہیں آیا ۔ جب پاکستان کے لوگ کسی تحریک کے لئے کسی مشکل میں اکٹھے ہوئے اور بلوچستان کے لوگ اس میں ساتھ نہیں تھے۔ ایوب خان کے خلاف مادر ملت فاطمہ جناح میدان میں اتریں تو بلوچستان کی مکمل سیاسی حمائیت انہیں حاصل ہوئی۔

یہ بار بار سب کے ساتھ مل کر چلنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

ہمیں نہیں بھولنا چاہیے جس جرگے نے بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا۔ اس کے معتبرین جانتے تھے کہ وہ سب سے کم ہیں شاید اس ملک میں ان کی کوئی سنے گا بھی نہیں۔ پھر بھی وہ اپنے وسائل سے بھرپور خطہ لے کر ساتھ آن ملے تھے۔ اس الحاق پر اعتراض کرنے والوں کی باتوں میں بڑا دم ہے۔ ہم جب اپنے گھروں میں گیس پر روٹی پکاتے تھے۔ سردیوں میں آگ تاپتے تھے۔ ہمیں سہولت دینے والا بلوچستان خود اس سے محروم تھا۔

مشرف دور میں نواب بگٹی کو مار کر بلوچستان کے دکھوں میں اضافہ کیا گیا۔

تب بھی جب عدلیہ بحالی تحریک شروع ہوئی تو سارا بلوچستان پاکستان کے ساتھ ہم آواز تھا۔ علی احمد کرد کو ہم سب نے دیکھا اور پہچانتے ہیں۔ باقی وکلا کے ناموں سے ہم واقف نہ ہو سکے۔ عدلیہ بحالی تحریک وہ امیدیں تو پوری نہ کر سکی جو ہم نے اس سے وابستہ کیں۔ وکیلوں نے پاکستان بھر میں کئی ایسے کام کئے جو مناسب نہ تھے۔ پھر بھی کسی کو یاد ہے کیا کبھی بلوچستان سے کوئی ایسی خبر آئی۔ کسی جج کو عدالت میں بند کیا گیا۔ کسی پولیس والے کو پھینٹی لگائی گئی۔ کسی ملزم کو وکلا نے عدالت سے فرار کرایا، نہیں نہ۔ عدلیہ بحالی تحریک میں نمایاں چہروں پر فوائد اٹھانے کے الزامات لگے۔ کوئٹہ کے وکلا اس سے بھی محفوظ رہے۔

آج کوئٹہ میں وکیلوں کو منصوبہ بندی سے گھیر کر اکٹھا کر کے مارا گیا ہے۔ صرف اس لئے کہ جب بھی کوئی تحریک، کوئی آواز اٹھی ہے تو اس کو یہاں سے بھرپور مدد فراہم کی گئی ہے۔ دکھ کی گھڑی ہے۔ نہتے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جو پرامن رہتے ہیں۔ قانون کے دائرے میں ہی رہے ہیں۔

اپنے فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے صحافی بھی نشانہ بنے ہیں۔ بلوچستان والوں کا صبر مثالی ہے وہ اپنے دکھوں کا مردانہ وار سامنا کرتے ہیں۔ بتانا تو اب ہمیں ہے کہ کیا ہم ان کے ساتھ ہیں۔ وہ تو اپنے گلے بھلا کر ہمیشہ ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔

اپنے کوئٹہ کے دوستوں کے پاس جائیں ان کا غم بانٹیں۔ اور خیال رکھیں کہ اس مشکل میں وہ اکیلے نہ رہ جائیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments