انگلستان کا ڈوور کاسل اور انگلش چینل


اِس حملے سے کُچھ عرصہ پہلے ہی ولیم ٹوئیس William Twis نے اِس قلعے کو ماڈرن بنایا اور اُس وقت کے حساب سے توپوں کو نصب کروایا۔ قلعے کی چھتوں کو مضبوط کیا تاکہ بھاری توپوں کا وزن برداشت کیا جاسکے۔ ولیم ٹوئیس نے جنگ کے دوران فوجیوں کو جلدی سے قلعے سے نیچے ساحل تک پُہنچانے کے لئے ایک گرینڈ شافٹ کا ڈیزائین تیار کیا۔ یہ ایک کنوئیں کی طرح کی تعمیر ہے جِس کے گرد سیڑھیاں گُھومتی ہُوئی نیچے جاتی ہیں۔ یہ گرینڈ شافٹ The Grand Shaft ایک سو اَسی فیٹ گہرا اور بیس فیٹ چوڑا ہے۔ اُس زمانے کے حساب سے ایک ہزار فوجی ساڑھے بارہ منٹ میں نیچے ساحل تک پُہنچ سکتے تھے اور یہ کافی تھا۔ ڈوور کاسل کے نیچے بھی گہری کُھدائی کرکے فوجوں کے ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا۔ بہرحال نپولین بونا پارٹ نے ڈوور پر حملہ نہیں کر سکا کیونکہ انگلش چینل پر انگلینڈ کی بحریہ نے بہترین جنگ لڑی اور نپولین کو مجبُور کردیا کہ وُہ واپس پلٹ جائے۔

دُوسری جنگِ عظیم میں جب برطانوی افواج شمالی فرانس کے ساحل ڈنکرک Dunkirk کے پھنس گئیں تو قریب چار لاکھ برطانوی فوجیوں کی جان اب ہٹلر کے رحم و کرم پر تھیں۔ بہرحال ریٹائیرڈ وائیس ایڈمرل برٹرام رامسے Bertram Ramsay کو چرچل کی جانب سے تعینات کیا گیا کہ وُہ کوئی منصوبہ بنائے اور وہاں پھنسے فوجیوں کو وہاں سے بحفاظت نکالا جائے۔ 20 مئی 1940 کو رامسے نے ڈوور کاسل کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا۔ اِس آپریشن کا نام آپریشن ڈائنیمو Dynamo رکھا گیا۔ رامسے نے اِس مشن میں چھوٹی چھوٹی کشتیوں کا استعمال کیا تاکہ جلد سے جلد فوجیوں کو نکالا جاسکے کیونکہ بڑے جہاز وہاں ساحل تک لنگر انداز نہیں ہوسکتے تھے۔

برٹرام رامسے کا خیال تھا کہ وُہ زیادہ سے زیادہ پینتالیس ہزار فوجیوں کو بچا پائے گا لیکن اُس کی حکمتِ عملی سے تین لاکھ ارٹتیس ہزار دو سو چھبیس تربیت یافتہ فوجیوں کی جان بچائی جاسکی۔ یہ آپریشن اٹھائیس مئی سے لے کر چار جون تک مکمل ہُوا۔ اگرچہ جنگی اعتبار سے یہ ایک شرمندگی اور پسپائی تھی لیکن بہرحال چرچل نے اِس کو برطانیہ اور اتحادیوں کے عزم کی جیت قرار دِیا اور قوم سے وعدہ کیا کہ وُہ جنگلوں میں، دریاؤں میں پہاڑوں میں جنگ جاری رکھیں گے۔ مئی 1945 میں جرمنی نے یورپ میں غیر مشروط ہتھیار ڈال دیے اور دو ماہ بعد اگست اُنّیس سو پینتالیس میں جاپان پر دو ایٹم بم گرائے گئے اور اِس طرح دُوسری جنگِ عظیم کا خاتمہ ہُوا۔

دُوسری جنگِ عظیم میں ڈوور کاسل کے نیچے ایمرجینسی یا نیوکلئیر جنگ کی صورت میں ہسپتال، ریسٹورینٹ، اور رہائشی کمرے بنائے گئے جہاں تین سو کے قریب سرکاری اور فوجی قیادت رِہ سکتی تھی۔ جبکہ بی بی سی کا ایک سُٹوڈیو بھی بنایا گیا تھا تاکہ نیوکلئیر وار کی صورت میں قوم کا حوصلہ بُلند رکھنے کے لئے میوزک بجایا جاسکے۔ سئیرئیسلی؟
بہرحال تب سے لے کر اب تک ڈوور کاسل سیاحوں کے لئے ایک مُستقل دلچسپی کی جگہ ہے اور کون جانے کب انگلینڈ کے دفاع کو اِس کی پھر ضرورت آن پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2