پنجاب اپنے ہیروز کو تسلیم کیوں نہیں کرتا؟


پاکستان کی تمام اکائیوں میں ایسی صورتحال صرف پنجاب کے ساتھ ہی لاحق ہے کہ وہ اپنی دھرتی کے خالص پنجابی تاریخی اور اہم شخصیات کو ”قومی ہیروز“ تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ بات صرف یہ نہیں کہ پنجاب یہاں کے غیرمسلم ہیروز کو نہیں مانتا مگر ستم تو یہ کہ پنجاب میں اپنے مسلمان ہیروز تک کو بھی لفٹ نہیں دی جاتی۔ پنجاب سے تمام تاریخی ہیروز کتابوں سے نکال بھی دیے جائیں تو ”راجا پورس“ کا اک کردار ہی پنجاب کو اور ہزاروں سالوں تک تاریخ میں زندھ رکھ سکتا ہے۔ جبکہ مہاراجہ اشوک اعظم، مہاراجہ رنجیت سنگھ، بابا فرید، بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین، بھگت سنگھ، ادھم سنگھ، دلا بھٹی، رائے احمد خان کھرل، سر گنگا رام سے لے کر ایسے سینکڑوں ہیروز ہیں جو پنجاب کے لوک ادب اور لوک دانش کا اہم کردار ہیں۔ جن کی کہانیاں ابھی تک لوگوں کی زبانوں پر ہیں۔

میں صرف سندھ کی بات بھی کروں تو یہاں کی لوک داستانوں اور حالیہ شاعری میں جہاں بھی انگریز کے خلاف ”مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں“ کا نعرہ لگانے والے ہوش محمد قمبرانی (ہوشو شیدی) کا نام آتا ہے وہیں اک ہندو نوجوان راہی ہیمن داس (ہیموں کالانی) کا نام بھی آتا ہے، اور مسلمان مائیں اب بھی اپنے بچوں کو یہ لوری دیتی ہیں کہ

”شال ہوشو ٿئین، شال ہیمون ٿئین

سنڌ تی سر ڏئین، امڙ اھا آس

کاش ہوشو بنو، کاش ہیموں بنو،

اور سندھ پر قربان ہوجاؤ، یہ تیری مان کی آس اور امید ہے۔

سندھ کے شہید ہیموں کالانی کا کردار پنجاب کے شہید بھگت سنگھ سے ملتا جلتا ہے، 1942 ع میں ہیموں کالانی سکھر کے قریب انگریز فوج کی ہتھیاروں سے بھری ٹرین کو بم سے اڑانے کی کوشش کرتے ہوئے گرفتار ہوگیا، اور اس کو اس شرط پر معاف کرنے کا عندیہ دیا گیا کہ وہ اپنے رہنما اور باقی ساتھیوں کے نام بتادے، اور ساتھ ہی اس کی والدہ کو کہا گیا اگر ہیموں معافی نامے پر دستخط کردے تو اس کو آزاد کیا جاسکتا ہے۔ مگر انہوں نے شہید بھگت سنگھ کی طرح معافی نامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا سولی پر جھول گیا۔ کہتے ہیں کہ آخری ملاقات میں جب ہیموں سے اپنی بیوی کو ملایا گیا تو ہیموں کو اپنی بیوی نے کہا ”تم کبھی معافی مت مانگنا، دھرتی کے ساتھ دغا مت کرنا، مجھے شرمندہ مت کرنا، میں اپنی سہیلیوں کو کیا منہ دکھاؤں گی، میں یہ نہیں سن سکتی کہ اک ڈرپوک کی بیوی ہوں۔ “

اس سے پہلے کی تاریخ میں محمد بن قاسم اور راجا ڈاہر کے سلسلے میں سندھ باب الاسلام بننے کے باوجود ”ابن قاسم“ کو اہم اسلامی تاریخی کردار تو تسلیم کرتا ہے مگر اپنا قومی ہیرو نہیں مانتا، اور یہ سچ ہے۔ راجا ڈاہر دھرتی کا بیٹا تھا اور اس وقت بھی اس کا نام تمام سرکاری نصابی کتابوں میں ولین کے طور پر پڑہائے جانے کے باوجود ”قومی ہیرو“ سے کم نہیں ہو سکا۔ پنجاب کی تاریخ میں جو ظلم راجا پورس کے ساتھ ہوا ایسا اور کسی راجا کے ساتھ نہیں ہوا۔

یہ پنجاب ہی تھا جس کے بہادر بیٹے پوری دنیا کو فتح کرنے والے فوجی جرنیل سکندر اعظم کے راستے کی دیوار بنے۔ منگلا دیوی کا قلعہ اور جہلم کے کنارے ابھی کئی صدیوں تک پنجاب کے بہادروں کی داستانیں ہماری نسلوں کو سناتے رہیں گے۔ اشوک اعظم بھی اسی دھرتی کا بیٹا تھا جس نے سب سے پہلے دلی، کشمیر اور لاہور سے ہوتے پشاور اور کابل تک جی ٹی روڈ کا اصل تاریخی راستہ بنایا تھا۔ پوری دنیا میں تاریخ کی کتابیں اشوک اعظم اور راجا پورس کے نام اور کارناموں سے بھری پڑی ہیں مگر پنجاب کے کتابوں اور نصابوں سے ان کا ذکر غائب ہے، کیوں؟

کیونکہ ”پنجاب اپنے ہیروز کو تسلیم نہیں کرتا۔ “

مہاراجا رنجیت سنگھ ہو، شہید بھگت سنگھ یا شہید ادہم سنگھ یہ پنجاب کے بہادر بیٹے تھے اور اور رہیں گے۔ بھارتی پنجاب میں کوئی بھی نصابی کتاب یا لوک داستان ان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے مگر پاکستانی پنجاب میں ان کا ذکر تک نہیں ملتا، اس سے اوپر ستم یہ کہ ان کا ذکر کرنے والوں کو بھی غداری کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ یہ تو رہے غیر مسلم سکھ ہیروز مگر پنجاب نے تو اس دھرتی کے مسلمان ”دلا بھٹی اور رائے احمد خان کھرل“ جیسے بہادر ہیروز کو بھی لفٹ نہیں کرواتا۔

پنجاب میں دس سالوں سے سندھی اخبار عوامی آواز کے بیورو چیف دوست حفیظ چنا کا کہنا کہ ”پاکستان بننے اور پنجاب میں“ مذہبی دل لگی ”کچھ زیادہ ہونے والے دلیل کے باعث اس بات کو تو مانا جاسکتا ہے کہ پنجاب غیر مسلم پنجابی ہیروز کو تسلیم نہیں کریگا، مگر یہ کیا کہ وہ اپنی مسلمان ہیروز کو بھی نکال باہر کردے، اس سے اوپر ظلم کی انتہا یہ کہ ان لوگوں کو قومی ہیروز بنایا گیا ہے جن میں آدھے غیر پنجابی ہیں جن کا کبھی اور کسی بھی صورت میں پنجاب سے واسطہ یا رابطہ نہیں رہا اور باقی قابضوں اور غاصبوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا ہے جنہوں نے باہر سے آکر نہ صرف پنجاب پر غیر قانونی قبضہ کیا مگر پنجاب کی عوام پر ظلم و ستم کے پہار بھی توڑے۔ “

اس سلسلے میں اک دانشور ٹائپ سرکاری افسر کا خیال ہے کہ ”پنجاب ہمیشہ سے محکوم رہا ہے، اتنا کہ اسے آزادی اور خودمختاری کی لذت کا احساس تک نہیں، اوپر سے نہایت زرخیر اور کاروباری خطہ ہونے کی وجھ سے یہاں کے لوگ نہایت پر امن اور ٹھنڈے مزاج کے تھے اور وہ بار بار لڑنے اور مرنے کے بجائے سرینڈر کردیتے تھے، اور اسی میں اپنی عافیت سمجھتے تھے۔ پنجاب اس وقت جب واقعی مکمل آزاد ہوچکی ریاست پاکستان میں شامل ہے تو اس وقت بھی شاید اس کو یقیں نہیں کہ“ آزادی اور خودمختاری کوئی اچھی چیز ہے۔ پنجاب اس وقت بھی ہر چیز سرنڈر کرنے کو تیار ہوجاتا ہے، اور وفاق میں ایسی معاملات کو اچھالتا اور ہوا دیتا رہتا ہے جس پر دوسرے صوبے راضی نہیں ہوتے۔ اردو کے سامنے اپنی ماں بولی پنجابی اور لکھنوی ثقافت کے سامنے پنجاب کی ہزاروں سال پرانی ثقافت اور تمدن کو قربان کرنے جیسا کام صرف پنجاب ہی کرسکتا ہے۔ ”

مگر ایسا کیوں ہے، یہ بات سمجھنے میں بہت مشکل ہو رہی ہے، پنجاب کے صوفی شعراء میں بابا فرید، بابا گرو نانک، سلطان باہو، وارث شاہ، بلھے شاہ، شاہ حسین سے لے کر میاں محمد بخش تک ایسے کمال شخصیات موجود ہیں جن کو عالمی سطح کی شخصیات مانا جاتا ہے، ان اولیاء اکرام کی وجھ سے ہی ہر پنجابی فرد کا اپنی دھرتی ماں اور ماں بولی سے کسی نہ کسی طرح واسطہ اور رابطہ استوار رہتا ہے۔ ایسی شاندار شخصیات کے باوجود پنجابی بولی اپنے دیس میں وہ خاطر خواہ عزت و تکریم کیوں نہیں پاسکی۔

پنجابی بولی کے کچھ عشاق کا کہنا ہے کہ ”اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، اک یہ کہ اس دیس پر قابض حکمرانوں نے ہمیشہ پنجابی کے بجائے فارسی، انگریزی اور اب اردو کو نافذ رکھا اور جب سینکڑوں سالوں سے پنجابی بولی کا سیاسیات اور اقتصادیات سے کوئی تعلق نہیں رہا تو یہ کمزور پڑتی چلی گئی اوپر سے محکوم پنجابی قوم کو اپنا مفاد بھی اس میں نظر آیا کہ وہ حکمرانوں کی بولی اور ثقافت کو اپنائیں۔ پاکستان بننے کے بعد بھی پنجاب نے اپنے اس مزاج کو قائم رکھا اور پنجابی بولی پر اردو کو فوقیت دی، دلچسپ بات یہ کہ انگریز سے آزادی کے بعد بھی انگریزی کو تو برقرار رکھا مگر پنجابی پھر بھی وہ مان تران نہ پاسکی، جس کی وہ حقدار تھی۔

پوری دنیا میں قوموں کی اپنی دھرتی سے محبت کا عنصر مان بولی اور ثقافت کے حوالے سے جڑا رہتا ہے، اس وقت جب پنجابی قوم کا اپنی دھرتی، بولی اور ثقافت سے رشتہ کمزور جبکہ لکھنوی، عربی اور انگریزی سے زیادہ مضبوط ہے تو فطری طور پر اک پنجابی کے جذبات اور محبتیں بھی ان کے ساتھ منسلک ہیں۔

سندھ کے لوگوں کے ساتھ مسئلہ تھوڑا مختلف ہے وہاں لوگ مذہب معاملات اور مالی مفادات سے زیادہ دھرتی، بولی اور ثقافت کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہان پر ہیروز میں جہاں ہوشو ہوگا وہاں ہیموں بھی ہوگا، شعراء میں جہاں شاہ بھٹائی اور سچل سرمست ہوگا وہاں سوامی سامی بھی ہوگا، جہاں گلوکار گویوں میں استاد بیبا خان اور استاد بڑے منظور علی خان ہوگا وہاں کنور بھگت بھی ہوگا، جہاں فلاحی شخصیات میں حسن علی آفندی اور سید الہندو شاہ ہوگا وہاں پارسی جہانگیر کوٹھاری، جمشید نسروانجی، سر کاؤس جی، نارائڻ جیٹھا مل ودیا، رائے بہادر اودھو داس تارا چند سے لے کر دوسرے لوگ بھی ہوں گے، دانشوری اور علمی کمالات میں جہاں مرزا قلیچ بیگ، علامہ آئی آئی قاضی اور عمر بن محمد داؤدپوتہ ہوں گے وہاں شاہ بھٹائی کے شارح ڈاکٹر گربخشانی، کلیان ایڈوانی، کاکو بھیرو مل مہرچند ایڈوانی، سے لے کر کامریڈ سوبھو گیانچندانی کا ذکر بھی آئے گا۔

ہم اگر اپنی آنکھوں پر میگنیفائنگ گلاسز لگا کر دیکھیں تو ہمیں قصہ ذرا اور مختلف بھی دکھائی دے گا۔ سندھ میں اب بھی ہندو برادری اپنے نومولو بچوں کے نام ”اشوک“ رکھتے ہیں، جبکہ مزیدار بات یہ ہے کہ ہندو دھرم میں اشوک نامی کوئی دیوتا نہیں۔ اشوک اعظم تو پنجاب کا تاریخی کردار اور ہیرو ہے اور سندھ کے باشندے اسی اشوک اعظم کو بھی اپنا ہیرو مانتے ہیں۔

سندھ میں کوئی ایسی جامعہ نہیں ہوگی جس کے ہاسٹلز کے نام اپنے قومی ہیروز سچل، لطیف، سامی، سسئی، مارئی اور کئی ایسے نام پر ہو، سب کے سب مقامی کوئی مذہبی تفریق نہیں۔ مگر پنجاب میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ پنجاب کی جامعات میں کسی ایک بھی ہاسٹل کا نام اپنے مقامی ہیرو کے نام پر نہیں۔

ایسا کیوں ہے، صرف اس لئے سندھ کے لوگ مذہبی طور صوفی مزاج اور دھرتی سے جڑے لوگ ہیں۔ اس لئے وہ اپنے تمام ہیروز کی قدر کرتے ہیں، اور اسی قدر اور عشق کی وجھ سے کئی لوگ گذشتہ اک دہائی سے ”گمشدگان“ بھی بن جاتے ہیں، مگر وہ خالی جگہ کوئی اور پر کرلیتا ہے، کیونکہ سندھ اپنے قومی ہیروز کو نہ خود بھولنا چاہتا ہے نہ تاریخ کے ”گمشدگان“ میں شامل کروانا چاہتا ہے۔ تو امید ہے کہ اس مثال سے یہ سمجھ میں آجانا چاہیے کہ ”پنجاب اپنے ہیروز کو تسلیم کیوں نہیں کرتا؟“

اب پنجاب کو جاگنا ہوگا، اپنی دھرتی، بولی اور ثقافت کے ساتھ تجدید عشق کرنا ہوگا۔ ایسے ہی پنجاب نہ صرف اپنے ”گمشدہ قومی ہیروز“ کو بازیاب کرواسکے گا، ان کو تسلیم کر سکے گا مگر تاریخ میں دوسری قومیتوں کے ساتھ آگے بھی بڑھ سکے گا۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).