ادارہ سازی کا بحران


پاکستان کا بنیادی مسئلہ ادارہ سازی کا بحران ہے۔ کوئی بھی ریاست کی کامیابی کی کنجی اداروں کی مضبوطی، استحکام، خود مختاری اور شفافیت کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ ریاستی نظام کو جانچنے کا ایک بڑا پیمانہ یہ بھی ہوتا ہے کہ یہاں اداروں اورافراد کے مقابلے میں کس کو بالادستی حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ جہاں افراد مضبوط ہوں گے وہاں ادارے کمزور اورجہاں ادارے مضبوط ہوں گے وہاں افراد اداروں کے تابع ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارا قومی بحران یہ ہے کہ یہاں اداروں کے مقابلے میں افراد زیادہ طاقت ور اوربالادست ہیں اوراداروں کی حیثیت ان طاقت ور افراد کے ہاتھوں بے بسی اوریرغمالی کی ہے۔ یہ مسئلہ کسی ایک ادارے کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر پوری ریاست اسی ادارہ سازی کے بحران میں گھری نظر آتی ہے۔

جب ادارہ جاتی بحران کی بات کی جاتی ہے تو عمومی طور پر ہم انتظامی اداروں کی بات کرکے بات کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ یہ مسئلہ محض انتظامی اداروں تک محدود نہیں بلکہ ہمارے سیاسی، سماجی، قانونی، انتظامی، معاشی، علمی و فکری ادارے سب ہی زوال یا بحران کا شکار ہیں۔ اداروں کے بحران کی یہ کیفیت عمومی طور پر معاشرے میں انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتی ہے۔ اسی کا ایک اورعملی نتیجہ ریاست اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی صورت میں پیدا ہوتا ہے اور لوگ اداروں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے فیصلے خود یا قانون کو ہاتھ میں لے کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قومی المیہ یہ ہے کہ طاقت ور اوربالادست افراد یہ سمجھتے ہیں کہ اداروں کی مضبوطی ان کے مفادات کی کمزوری کا سبب بنتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری سیاست اورحکمرانی کی ترجیحات میں ادارہ سازی کبھی بھی ایسی بڑی ترجیح نہیں بن سکی جو عملا ہماری قومی ضرورت کے زمرے میں آتی ہے۔

ادارہ سازی کے بحران کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اداروں میں موجود فیصلہ ساز لوگ قانون اورآئین کے دائرہ کار میں رہ کرکام کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر آئینی اورقانونی دائرہ کار سے باہر نکل کر کام کرنا، دیگر اداروں میں مداخلت کرنا اورقانون کے مقابلے میں اپنی مرضی و منشا کو فوقیت دینا ایک قومی مزاج کا حصہ بن گیا ہے۔ اداروں کی شفافیت کا عملی نکتہ بے جا مداخلتوں سے گریز کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جس انداز سے یہاں اداروں میں سیاسی مداخلتوں کو طاقت دی گئی ہے اس کی وجہ سے عملا قانون کی حکمرانی کا تصور پس پشت چلا گیا ہے۔

بہت سے انتظامی، قانونی و دیگر اداروں میں ایسے افراد کو لگایا جاتا ہے جن کی بنیاد سیاسی نوعیت کی ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے یہ ہی سوچ کارفرما ہوتی ہے کہ ہم اپنی من پسند افراد کی مدد سے اداروں کو اپنے تابع بنا کر چلائیں۔ اس رویہ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا آسان ہوگا کہ ہم ادار ہ سازی کے عمل میں بہت پیچھے کھڑے ہیں۔

عمومی طو رپر جب اداروں کی مضبوطی اورخود مختاری کی بات کی جاتی ہے تو اس کے پیچھے اصل سوچ اور فکر قانون کی حکمرانی سمیت شفافیت پر مبنی حکمرانی کا نظام ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ عام آدمی کی اصل حقیقی طاقت ادارہ سازی ہوتی ہے۔ اگر ادارے شفاف ہوں اور عام لوگوں کی وہاں رسائی اورانصاف کا حصول ممکن ہوتو لوگوں کا ریاست، حکومت اوراداروں پر اعتماد بڑھتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جب ہمارا حکمرانی کا مجموعی نظام ہی عدم شفافیت کی بنیاد پر کھڑا ہوگا تو اس میں ادارہ ساٖزی کی بہت زیاد ہ توقع رکھنا خود ایک بڑی خوش فہمی کے زمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ حکمرانی سے جڑے طاقت افراد ہی ادارہ سازی میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں۔ جب یہ سیاسی مداخلتیں کرتے ہیں تو پھر انتظامی افسران جو ان کے چہیتے ہوتے ہیں یا ان کی بنیاد سیاسی تقرری کی مدد سے ہوتی ہے تو وہ کیونکر ان طاقت ور افراد کے مفاد کو چھوڑ کر قانون کی پاسداری کریں گے۔

ہمارا اس وقت مجموعی طور پر سول سروس کا ڈھانچہ بری طرح بحران کا شکار ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اس سول سروس کے نظام میں اہل اور صلاحیت والے افراد موجود نہیں۔ لیکن اس نظام میں صلاحیت رکھنے والے افراد کی گنجائش کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ سول سروس میں موجود افراد کو حکمرانی کا نظام یہ ہی پیغام دیتا ہے کہ وہی لوگ منظور نظر ہوں گے جو ان کے مفادات کے تابع ہوں گے۔ سنیئر اوربلاصلاحیت افراد کے مقابلے میں جونیرز اورکم صلاحیت والے افراد کی مدد سے انتظامی نظام چلانے کے عمل نے پورے نظام کو خراب کیا ہے۔ جو بھی نظام عدم شفافیت اور عدم احتساب پر مبنی ہوگا وہ اپنی فعالیت کبھی بھی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ انتظامی افراد کو خود مختاری دینے کی بجائے ان کو خوف، ڈر یا دباؤ میں رکھ کر نظام چلانے کا عمل کبھی بھی پائدار نہیں ہوسکتا۔

ادارہ سازی کبھی بھی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوتی۔ اس کے لیے چھ عوامل اہم ہیں۔ اول ریاست اورحکمران طبقات کی مضبوط سیاسی کمٹمنٹ، دوئم اداروں میں بدتدریج شفافیت پرمبنی اصلاحات کا عمل، سوئم کڑی نگرانی، احتساب اورجوابدی کا نظام، چہارم سیاسی مداخلتوں، اقرا پروری سے پاک نظام، پنجم دنیا میں ادارہ سازی کے عمل میں اختیار کی گئی پالیسیاں، قانون اور اصلاحات و تجربات سے سیکھنے کا عمل، ششم قومی مزاج کو قانون اوراداروں کے تابع کرنے کا عمل درکار ہوتا ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ ادارہ سازی کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ “

کیونکہ ادارہ سازی ایک جمہوری نظام میں اصلاحات کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ اصلاحات کا عمل سیاسی اورجمہوری نظام میں پارلیمنٹ اور اس میں موجود حکومت اورحزب اختلاف کے باہمی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ لیکن ہمارا بحران یہ ہے کہ اول پارلیمنٹ کی فعالیت نہ ہونے کے برابر ہے اور دوئم وہاں پر موجود لوگوں کی بڑی ترجیح قانون سازی، اصلاحات نہیں بلکہ ترقیاتی فنڈ ز کا حصول ہوتا ہے۔ اس لیے جب خود پارلیمنٹ اوراس میں موجود سیاسی قیادت اصلاحات کے عمل میں بڑی رکاوٹ بن جائے تو ادارہ سازی کے تناظر میں ایک بڑا خلا سیاسی اورانتظامی بنیادوں پر پیدا ہوتا ہے جو بحران کو اور زیادہ سنگینی میں مبتلا کردیتا ہے۔

ادارہ سازی کے عمل کو مضبوطی دینے کا ایک بڑا ذریعہ ریاستی اورحکمرانی یا فیصلہ سازی کے اداروں پر دباؤ کی سیاست کو بڑھانا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑے فیصلے بغیر کسی دباؤ کے ممکن نہیں ہوتے۔ اس عمل میں رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد، ادارے، اہل دانش اور سیاسی وسماجی کارکنوں سمیت مختلف شعبو ں کے ماہرین کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ادارہ سازی کو یقینی بنانے میں دنیا میں موجود تھنک ٹینک زیادہ فعالیت کا کردار ادا کرتے ہیں اوران کے ریاستی وحکمرانی کے اداروں میں موجود باہمی رابطے زیادہ ادارہ سازی کو فعال بناتے ہیں۔

جبکہ یہاں اس کا بحران غالب نظر آتا ہے۔ ہماری رائے عامہ سے جڑے افراد یا ادارے بھی عدم فعالیت کا شکار ہیں یا ان کے اپنے ذاتی مفاد کی سیاست بھی ادارہ سازی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ خود اداروں میں ایسے مافیاز طاقت حاصل کرگئے ہیں جو اصلاحاتی عمل میں ایک بڑی دیوار بن کر ادارہ سازی کو عدم فعالیت پر مجبور کرتے ہیں۔

یہ جو ہمارے ملک میں طرز حکمرانی کا بحران ہے۔ اس بحران میں ہم چاروں اطراف سے حکمرانی یا گورننس کا رونا روتے ہیں۔ لیکن میڈیا سمیت دیگر سطح پر اس پر ہونے والے ماتم میں اصل بنیادی نکتہ ادارہ سازی کا نہ ہونا بحث مباحثہ میں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ہم مسائل کا رونا تو بہت روتے ہیں لیکن ان مسائل کی اصل وجوہات کا جائزہ یا تجزیہ پیش کرنے کی بجائے مصنوعی انداز سے بحران کو بھی پیش کرتے ہیں اوراس کے حل کو بھی۔ یہ جو اربو ں روپے ہم اصلاحات یا اداروں کی مضبوطی کے لیے خرچ کرتے ہیں وہ نہ صرف ضائع ہوتا ہے بلکہ حکومتی عدم ترجیحات کی نذر بھی ہوجاتا ہے۔ حکومتی اور اداروں کی سطح پر جو پالیسیاں ترتیب دی گئیں ان پر بھی کچھ نہیں ہوسکا۔

وزیر اعظم عمران خان اپنی حکمرانی کے نظام میں اداروں کی خود مختاری اور بالادستی سمیت فعالیت کی بہت زیادہ بات کرتے ہیں۔ لیکن ان کے بھی بہت سے اقدامات روایتی اور سیاسی مداخلتوں سے جڑے نظر آتے ہیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ ادارہ سازی کا عمل پرانے فرسودہ اورروایتی طور طریقوں سے ممکن نہیں۔ اس وقت جو اداروں کے تناظر میں ایک غیر معمولی صورتحال ہے اس میں ہمارے اقدامات بھی غیر معمولی اور سخت سمیت کڑوے فیصلوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ کیونکہ کینسر جیسے مرض کا علاج ڈسپرین کی گولی سے ممکن نہیں اس کے لیے ریاستی و حکومتی نظام میں ایک بڑ ی سرجری کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).