میں ہوں موٹیوشنل سپیکر


صبح دفتر جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی میں نے جلدی سے کال ریسیو کی۔ جی میں موٹیویشنل سپیکرحامد بول رہا ہوں، مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ جی بتائیے حامد صاحب موٹیویشنل سپیکر کا لفظ سن کر میں نے سنبھل کر جواب دیا۔ ”مجھے پتا چلا ہے آپ صحافی ہیں سوچا آپ سے ہی بات کر کے دیکھوں بات دراصل یہ ہے مجھے جاب کی ضرورت ہے“ ہیں جی۔ موٹیویشنل سپیکر والا سارا امیج اچانک میرے دماغ سے غائب ہوچکا تھا۔ حامد صاحب! وہ سب تو ٹھیک ہے مگر میں آپ کے کس کام آسکتا ہوں؟ ”جی میرا شوق میڈیا میں کام کرنے کا ہے آپ مجھے کہیں ریفر کردیں میں اینکر بن کر گزارہ کر لوں گا“۔

سمجھ میں نہیں آتا جس طرف نظر دوڑائیں ہر طرف موٹیوشنل سپیکرز ہی نظر آتے ہیں پھر بھی ہمارے لوگ دن بہ دن بے روزگار، نکھٹو، نکمے اور مایوس کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے موٹیوشنل سپیکرز بھرے مجمعے کو خاموش کروا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ بولتے ہیں تو ان کی باتوں سے پھول جھڑتے ہیں، یہ جہاں جاتے ہیں لوگ ان کی خوب آؤ بھگت کرتے ہیں، عزت دیتے ہیں، آٹو گراف لیتے ہیں، سیلفیاں بناتے ہیں۔ صرف ان سپیکرز کی گفتگو سننے کے لیے چھوٹے شہروں سے کئی لوگ طویل سفر طے کرتے ہیں۔

لوگوں کو اس بات کا یقین ہوچکا ہے کہ ان کی ناکامی کی کوئی تو وجہ ہے جو آج تک سامنے نہیں آسکی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے ٹیلنٹ کو پہچانا نہیں گیا بس اس وجہ کی کھوج میں وہ ان مہنگے موٹیوشنل سپیکرز کے سیشن کے پیسے بھی ادا کرتے ہیں۔ جب وہ سیشن میں شرکت کر کے واپس اوکاڑہ جانے والی بس میں بیٹھتے ہیں تو سوچتے ہیں ”یار موٹیوشنل سپیکر نے کامیابی کا وہ راز تو بتایا ہی نہیں“۔ پچھلے دنوں شہر کی ایک کانفرنس میں موٹیوشنل سپیکر نے حاضرین کو اس موضوع پر لیکچر دیا کہ آخر کیسے جاب چھوڑ کر اپنا کام کیا جاسکتا ہے، اس سیشن میں سپیکر کی تقریر کا لب لباب یہی تھا کہ آپ میں جذبہ ہو، ٹیلنٹ ہو اور کام کرنے کی لگن ہو تو آپ کو کسی کی نوکری کی بجائے اپنا کام کرنا چاہیے۔

مگر میں ساری رات یہ سوچتا رہا کہ اس موضوع پر لیکچر دینے والے یہ سپیکر اگر یہ سب کچھ جانتے ہیں تو پھر وہ اپنی ملازمت چھوڑ کر اپنا کام کیوں نہیں کرلیتے؟ میرے خیال میں ان کی یہ دھواں دار تقریرسن کر کئی بیچارے اپنی نوکریاں چھوڑ چکے ہوں گے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے موصوف خود آج بھی وہی نوکری کررہے ہیں اور ہر مہینے برابر تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔ سپیکر بننے کا چسکا اوپر سے موٹیوشنل سپیکر بننے کا فیشن ایسا چل نکلا ہے کہ کئی ماں باپ نے ابھی سے اپنے بچوں کے نام کے ساتھ یہ لکھنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بچہ جو ’پروفیسر ”کے نام سے معروف ہے مجھے اسلام آباد کی تقریب میں اس سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ صحافیوں کی تقریب میں اس ننھے پروفیسر کو خطاب کے لیے بلایا گیا تواس ننھے موٹیوشنل سپیکر نے کہا سب سے پہلے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ صحافی کون ہوتا ہے اور وہ کیا کام کرتا ہے؟

اس بات کے بعد اس بچے نے انگریزی کی ایک لائن پڑھی مجھے لگا میں نے یہ لائن کہیں پڑھ رکھی ہے فوری طور پر میں نے گوگل پر جاکے جرنلسٹ لکھا تو وہ تعریف آگئی اس کے نیچے مزید تفصیل موجود تھی اور یہ ننھا سپیکر وہ تفصیلات ہوبہو بیان کرکے حاضرین سے داد وصول کرتا رہا۔ میں اپنے صحافی بھائیوں کی طرف دیکھتا رہا حالانکہ اس کام کے لیے یہ سب اپنے موبائل سے انٹرنیٹ پر جرنلسٹ لکھ دیتے تو یہ ساری معلومات ان کے سامنے آجاتیں۔

موٹیوشنل سپیکرز میں حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ یہ اپنی بات کا آغاز کچھ یوں کرتے ہیں ”مجھے بیرون ملک سے بہت سے آفرز آئیں مگر میں نے سب ٹھکرا دیں، اسی طرح نوجوانوں کو دیکھ کر آغاز میں ہی کہہ دیتے ہیں“ یوتھ کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے ہمارا مستقبل بہت روشن ہے ”۔ موٹیویشنل سپیکرز اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ جہاں سے اینٹ اکھاڑیں نیچے سے موٹیوشینل سپیکر برآمد ہوتا ہے اب تو یہ عالم ہے اینٹ نہ بھی اکھاڑیں تو موٹیوشنل سپیکر نکل ہی آتا ہے۔ پہلے پہل مجھے موٹیوشنل سپیکرز سے چڑ تھی مجھے لگتا تھا یہ لوگوں کے خوابوں سے کھیلتے ہیں یہ ان میں جھوٹی امنگیں بیدار کرتے ہیں۔ یہ انہیں 10 سے 50 دن میں کامیاب ہونے کے جھوٹے گر سکھاتے ہیں۔ مگر اب مجھے یہ لوگ اچھے لگنے لگے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ پتا نہیں کیا ہے۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).