عقل کی دنیا میں پہنچا ہے تو یوں گم ہے جنوں


غزل تیز تیز قدموں سے چل رہی تھی۔ جنوں کی انگلی تھامے وہ کسی انجانی منزل کی طرف جا رہی تھی۔ جستجو کے سفر میں اسے کسی دکھ کسی آزار کی پرواہ نہیں تھی۔ یخ بستہ راستوں کی طویل مسافت کا احساس اس کے چہرے پر نمایاں تھا مگر وہ بھاگ رہی تھی۔ کسی درد، کسی دوا کسی وعدے کسی امید کا عنوان بنے بغیروہ تیز تیز بھاگ رہی تھی۔ راستے میں خوبصورت پیرہن میں سجی سنوری، گیسوو رخسار غنچہ دہن سینکڑوں نظمیں، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آسودہ و نا آسودہ درجنوں دوہے جو آج سارے جھگڑوں کو گھر پہ کہیں رکھ آئے تھے۔ سرو قامت، عشق و لڑکپن میں سرشار کئی قطعات اسے وحشت سے بھاگتا دیکھ رہے تھے۔

مگروہ سب سے دامن بچاتی بھاگی چلی جا رہی تھی۔ کہ اچانک ذات کے پانیوں سے ہوتے ہوئے وہ سراب کے جنگلوں میں پہنچ گئی۔ جہاں ہر طرف نور آگہی کے خواب ہی خواب اگے تھے۔ وہ حیرت زدہ تھی۔ شدید الجھن میں تھی۔ اس کے قدم اب آگے نہیں جا رہے تھے۔ شعور کے تمام واپسی کے راستے بند ہو چکے تھے۔ جنوں اسے اپنی دنیا میں بلا رہا تھا۔ اس نے گھبراہٹ میں ان اگے خوابوں کی کھڑکی سے چھلانگ لگا دی۔ وہ ایک الگ دنیا میں داخل ہو گئی۔ وہی جنوں کی دنیا تھی۔ آج پہلی بار اسے اپنی آواز سنائی دینے لگی تھی۔ وحشت کا سفر ختم ہو چکا تھا۔

یہ کیا، میں یہاں آتے ہی بدلنے لگی ہوں۔ یہاں کتنا سکون سا ہے۔ وہ خود سے کہ رہی تھی۔ یہ کیا میں تو دریا کی روانی جیسے بہنے لگی ہوں۔ یہاں تو ہر شے رقص میں ہے۔ یہ رقص کرتی رنگ برنگی تتلیاں، اف خدایا یہ کتنی خوبصورت ہیں۔ ارے۔ یہ دیکھو، یہ بیج، یہ تو ابھی ابھی بوئے گئے تھے، دیکھو تو کیسے پھول بن گئے ہیں کیسی سحر انگیز خوشبو دے رہے ہیں۔

آہ! محبت کی جتنی بھی زبانیں ہیں، جتنے بھی رنگ ہیں، سب یہاں ہیں۔ میں تو خوشی اور حیرت سے مسکرانے لگی ہوں۔ بادلوں نے موسموں کا بانکپن پہن لیا ہے۔ وہ خود سے کہتی جاتی تھی۔

یہ کیا، میں تو اڑنے لگی ہوں، رنگ برنگے پھولوں کی کیاریوں سے خوشبویئں سمیٹتی کیسی اوپر، اور اوپر، الگ ہواوں میں، الگ فضاؤں میں۔ ارے یہ چاند بھی تو پاس ہے، ارے یہ بھی تو رقص میں ہے۔ ہر طرف چاندنی بکھر رہی ہے۔ چاروں طرف ٹھنڈی روشنی جلوہ نما ہے۔ یہاں جگنووں کی قطاریں ہیں۔

مجھے لگ رہا کہ یہ روشنی جیسے میرے وجود میں سمٹ کر واپس پھیل رہی ہے۔ ستارے اور اس سے پرے اور ستارے، کہکشائیں اور اس سے پرے اور کہکشائیں سب ہی تو رقص میں ہیں۔ اور میرا دل، اس پہ یہ کیسا اثر ہو رہا ہے۔ یہ تو حسن وعشق اور محبت کے جذبوں سے سرشار ہو گیا ہے۔

میں کتنی چاہ اور ارمان سے یہاں آئی تھی۔ لیکن یہاں تو کسی ارمان کی کوئی تمنا ہی نہیں رہی۔ یہ کیا، یہ بھوک، پیاس گرمی، سردی سب ہی احساس غائب ہو گئے ہیں۔ وقت ماہ و سال کی پابندیوں سے آزاد ہو گیا ہے۔

یہ شیریں دھنیں الاپتے راگ کانوں میں کیسے رس گھول رہے ہیں۔ یہ تو مجھے خود سے جدا کر رہے ہیں۔ یہ میں تحلیل ہو رہی ہوں یا کوئی مجھ میں تحلیل ہو رہا ہے۔ یہ کیا، یہاں وجود کا کوئی وجود محسوس نہیں ہو رہا۔ اندھیرا روشنی میں، برائی اچھائی میں سب تضاد ایک دوسرے میں گم ہیں۔ عجب مستی چھائی ہے۔ الفاظ اپنے معنی میں گم ہو رہے ہیں۔ وہ خود سے کہ رہی تھی۔

اور یہ تو اب ہر شے نے میرا وجود پہن لیا ہے۔ پھول، چاند ستارے سبھی تو غزل گانے لگے ہیں۔

ماما!

ماما!

بیٹے نے گاڑی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ سکول سے چھٹی ہو گئی تھی۔ میں آج اسے پک کرنے کچھ دیر پہلے ہی آ گئی تھی۔ اور انتظار میں گاڑی میں ہی آنکھ لگ گئی تھی۔ آنکھ کھلتے ہی منظر یکسر بدل چکا تھا۔ ہارن دیتی گاڑیاں تھیں۔ سارے منظر کو گردآلود کرتا غبار رواں تھا۔ جو دل ودماغ کو ماوف کر رہا تھا۔ میں نے گاڑی کا دروازہ کھولا، باہر ایک خاتون اپنی دوست سے کہہ رہی تھی، آج گل احمد لان پر % 50 آف ہے۔ بیٹے نے گاڑی میں بیٹھتے ہی آئی پیڈ لیا اور گیم شروع کر دی۔ میں نے گاڑی گھر کے لئے اسٹارٹ کی۔ ریڈیو پر نیوز بولٹن آن ہو گیا۔

میں مسکرائی۔ کیوں کہ یہ جنوں کی دنیا نہیں تھی۔ یہ جدید ٹیکنالوجی کی دنیا تھی۔ یہ عقل کی دنیا تھی۔ یہ خبر کی دنیا تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).