یونیورسٹی میں مسلمان بنانے اور جوڑے بنانے والے طبقات


ہمارے ملک کی جامعات باقی دنیا سے ”ذرا ہٹ کے“ ہیں دیگر دنیا کی جامعات اپنے معیار تعلیم کے پیچھے پڑی رہتی ہیں وہاں کے سٹوڈنٹ بھی کلاسوں کے وقت لیکچرز سننے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جبکہ ہماری یونیورسٹیاں بنیادی طور پہ دو نظریات پہ قائم ہیں۔

ایک کا نظریہ ہے کہ مرد اور عورت دو الگ دنیا کے باسی ہیں وہ اپنی تمام توانائیاں انھیں الگ رکھنے پر مرکوز رکھتے ہیں۔ اور یہ کہ کچھ بھی ہو جائے ہر کسی کو مسلمان بنا کر چھوڑنا ہے (مسلمان سے یہاں مراد کلمہ گو نہیں بلکہ ان کے مسلک و افکار کو اپنانے والا ہے ) اس کے لیے وہ ڈنڈا پتھر اسلحہ سب کچھ استعمال کر چھوڑتے ہیں۔ اور جو اس نظریے کے خلاف ذرا بھی چوں چرا کرے جتھوں کی صورت اکٹھے ہو کر اسے ”سیدھا“ کیا جاتا ہے جو زیادہ ہی گستاخ ہو شخصی آزادی اور حقوق جیسی بے راہ رو باتیں کرے اسے سیدھا عزرائیل کے ہمراہ روانہ بھی کر دیا جاتا کہ یہ ناہنجار اب ہم سے نہیں سنبھلتا تو ہی اسے خالق کے پاس لے جا۔

دوسرا نظریہ اس کے بالکل مخالف ہے وہاں آزادانہ ماحول مہیا کیا جاتا ہے آدم اور حوا کی اولاد درسگاہ کو جبل رحمت سمجھ کر اپنے بچھڑے ہوئے جوڑی دار کی تلاش میں آتے ہیں۔ ایسی ہی ایک یونیورسٹی میں میری اپنی ہی ایک دوست کی بیٹی کی ”استاذ“ نے ”بس یونہی“ کلاس کے طلبہ و طالبات کے جوڑے جوڑے بنائے اور ان کی رسم حنا منعقد کی ”بس یونہی“۔ پھر اس پروقار تقریب کی تصاویر سوشل میڈیا پہ جاری کر دی گئیں ”بس یونہی“۔ اس بچی کے رشتہ داروں نے وہ تصاویر دیکھیں آگے آپ تصور کر سکتے ہیں کن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ جب لڑکی کی والدہ نے محترم استانی جی سے استفسار کیا تو انھوں نے فرمایا ”یہ سب تو“ جسٹ فار فن ”تھا اب پتہ نہیں کس نے تصویریں اپ لوڈ کیں“۔

اب جامعات کی ان دو انتہاؤں کے بیچ تعلیم، معیارتعلیم، فیکلٹی، علم و تحقیق جیسی غیرضروری عناصر شرمسار سے کہیں منہ چھپائے پڑے ہوتے ہیں۔ اب طلباء نظریات کی حفاظت کریں کہ ایجادات کرتے پھریں۔ کہیں کہیں پھر بھی کچھ بے وقوف پائے بھی جاتے ہیں جو اتنے سازگار ماحول میسر ہونے کے باوجود اپنا وقت لائبریریوں ضائع کرتے پھرتے ہیں۔ کوئی چھوٹی موٹی تحقیق کوئی ایجاد کوئی تھیوری لے بھی آتے ہیں۔ لیکن سلام ہے ہمارے سسٹم کو جو ایسے بے وقوفوں کو ذرا بھی لفٹ کرواتی ہو۔

مجال ہے جو ان کے ہنر ہو ذرا بھی کہیں کھپاتے ہوں۔ ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی پتہ چلا مائیکرو بیالوجسٹ ہے پاکستان میں رہتے ہوئے کلوننگ جیسی بے کار تحقیق میں گولڈ میڈل لے رکھا ہے بے وقوف نے۔ نوکری کی تلاش میں ہے سائنس میں نہ سہی درس تدریس میں مل جائے۔ پھر کافی عرصے بعد اس سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا ریڈی میڈ کپڑوں کا برانڈ بنا کر دکان پہ بیٹھا ہے۔

جب ہمارے سیاسی نعرے روٹی کپڑا اور مکان ہو گا تو ہمارے کاروبار کھابے، ملبوسات کے برانڈ اور رئیل سٹیٹ ہی تو ہوں گے۔ اور ہمارے سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).