حفیظ شیخ: کامیابی کی کنجی یا ناکامی کا نیا نام


وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اپنے معتمد خاص اسد عمر کو ہٹا کر عبدالحفیظ شیخ کو مشیر کے طور پر وزارت خزانہ کا چارج دینے کے بارے میں ہر نوع کے تبصرے سامنے آرہے ہیں۔ کوئی اسے ایک حوصلہ مندانہ سیاسی فیصلہ قرار دے رہا ہے تو کوئی اسی غیبی قوتوں کی ہدایت کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ نئے مشیر خزانہ کی سربراہی میں ملکی معیشت بحران سے نکل پائے گی یا اسے بدستور مشکلات کا سامنا رہے گا۔ اس سوال کا جواب فی الوقت موجود نہیں ہے۔

حفیظ شیخ کو انہی مسائل اور اسی بیمار معیشت سے نمٹنا ہے جس سے اسد عمر آٹھ ماہ تک گتھم گتھا رہے، اپنی کامیابی کے دعوے کرتے رہے اور بالآخر ناکامیوں اور نااہلی کا الزام لئے کابینہ سے ہی رخصت ہوگئے۔ اسد عمر کی ناکامی میں ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے زیادہ ملک میں پیدا کئے گئے سیاسی ماحول کا اثر تھا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اسد عمر نے وزیر خزانہ بننے سے پہلے تحریک انصاف کے جیالے اور منہ زور لیڈر کے طور پر سابقہ حکومتوں کی ناکام مالی پالیسیوں اور پیٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر اشیائے صرف کو مہنگا کرنے کے بارے میں اس قدر دعوے کئے تھے کہ وہ وزیر خزانہ کے طور پر وہ کچھ بھی کرتے، یہ باتیں ان کا راستہ روکے رہتیں۔

اس لئے یہ رائے بھی موجود ہے کہ اسد عمر کو وزیر خزانہ بنا کر سیاسی تدبر کا مظاہرہ نہیں کیا گیا تھا۔ اور اسد عمر کی رخصتی بھی دراصل اسی بات کا اشارہ ہے کہ عمران خان اب اپوزیشن لیڈر نہیں ہیں بلکہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اب وہ کسی ثبوت کے بغیر الزام لگا کر اور ٹاک شوز کی رونق کا سبب بن کر مقبولیت کا اہتمام نہیں کرسکتے۔ اب انہیں کارکردگی دکھاتے ہوئے عوام کی خواہشات کو پورا کرنا پڑے گا۔ تب ہی وہ اپنے دعوؤں میں سرخرو ہوسکیں گے اور ان کی اس بات کا اعتبار کیا جاسکے گا کہ سابقہ حکومتیں اپنی بدعنوانی کی وجہ سے ملکی معیشت کو ذاتی مفاد کے لئے نقصان پہنچانے اور سرکاری وسائل چرانے کا سبب بنتی رہی ہیں۔

اس تناظر میں یہ کہنا مشکل ہے کہ مشیر خزانہ کے طور پر عبدالحفیظ شیخ کو بہتر حالات کار میسر آئیں گے۔ کابینہ میں ردوبدل کے بارے میں اپنا مؤقف پیش کرنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے قبائلی علاقے میں ایک جلسہ عام کا انتخاب کیا اور ان تبدیلیوں کے بارے میں سامنے آنے والی قیاس آرائیوں اور چہ میگوئیوں کا جواب دینے کی بجائے کرکٹ کی زبان میں یہ کہا کہ وہ بطور کپتان پاکستان کو جتوانا چاہتے ہیں اور جو بھی اس مقصد میں کامیابی کا سبب نہیں بن سکتا، اسے کابینہ سے نکال دیاجائے گا۔ اس طرح انہوں نے کابینہ بلکہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں میں تبدیلی کا اشارہ بھی دیا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے تفصیل سے سابقہ حکومتوں کے خزانہ لوٹنے اور ملک کے قرضوں میں غیر معمولی اضافہ کا سبب بننے کا الزام بھی دہرایا۔ اس طرح وزیر اعظم نے ایک بار پھر اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ ملک کو مہنگائی، معاشی مشکلات، قرضوں کی ادائیگی، بجٹ خسارہ، محاصل میں کمی و اخراجات میں اضافہ اور برآمدات و درآمدات میں تفاوت کے جن مسائل کا سامنا ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی دو سابقہ حکومتو ں نے ملک کے قرضوں میں غیر ضروری اضافہ کردیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت ان مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے۔ اس لئے عوام کو مہنگائی کی صورت میں جن مشکلات کا سامنا ہے ان کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔

مسئلہ صرف یہ ہے کہ حکومت سنبھالنے کے آٹھ ماہ بعد عام شہری کو یہ دلیل سمجھانا آسان نہیں ہے۔ جوں جوں تحریک انصاف کی حکومت کی مدت میں اضافہ ہوتا جائے گا، یہ دلیل غیر مؤثر اور بے معنی ہوتی جائے گی کہ سابقہ حکومتوں نے کیا کیا تھا۔ اب یہ سوال کیا جائے گا کہ موجودہ حکومت عوام کی سہولت کے لئے کیا کر رہی ہے۔ اس لئے معاشی حالات درست کرنے کے ساتھ تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے یہ بھی اہم ہوگا کہ وہ اپنا سیاسی بیانیہ درست کریں اور الزام تراشی کی بجائے ذمہ داری قبول کرنے کا رویہ اختیار کرنے کی عادت ڈالیں۔ کیوںکہ جب کوئی حکومت مسائل حل کرنے میں ناکام ہو رہی ہو اور وہ ان کی ذمہ داری قبول کرنے پر بھی آمادہ نہ ہو تو پھر اس پر نااہلی کا الزام لگانا آسان ہوجاتا ہے۔

سیاسی گرما گرمی میں عمران خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ملک میں بدعنوانی اور خزانہ لوٹنے کا ایک سنسنی خیز ماحول پیدا کیا ہے۔ معاشی اصلاح کے کسی بھی پروگرام پر عمل کے لئے سیاسی بیان بازی کی شدت میں کمی کرنا ضروری ہوگا۔ اگر حکومت اس حوالے سے نئے مشیر خزانہ کے ساتھ تعاون نہ کرسکی تو وہ تمام تر صلاحیتوں اور عالمی اور قومی رابطوں سے قطع نظر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ عمران خان کی کابینہ کے رکن کے طور پر حفیظ شیخ بھی اگر معاشی سمت درست کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو انہیں ذاتی طور پر اس کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ وہ عالمی شہرت کے اقتصادی ماہر ہیں اور کسی نہ کسی پوزیشن پر واپس چلے جائیں گے لیکن عمران خان کو یہ جواب دینا پڑے گا کہ ملکی مالی معاملات درست کیوں نہیں ہو پا رہے۔ اسی لئے متعدد مبصر ابھی سے یہ پیش گوئی کررہے ہیں کہ اس مرحلہ پر وزیر خزانہ گیا ہے، اگلے مرحلے پر حکومت جا سکتی ہے۔

پاکستان کے مالی معاملات پیچیدہ اور گنجلک ہیں۔ اس پر قرضوں کا بوجھ ہے اور وہ سی پیک کے منصوبوں کا حصہ ہے۔ اس منصوبہ کے تحت ایسے پراجیکٹ تعمیر کئے جارہے ہیں جن سے ملک کو طویل المدت فائدہ ہوسکتا ہے۔ لیکن سی پیک کے حوالے سے رازداری سے کام لینے کی وجہ سے عالمی اور قومی سطح پر شبہات نے بھی سر اٹھایا ہے۔ امریکہ اور بھارت سیاسی اور اسٹریجک وجوہات کی وجہ سے سی پیک کی مخالفت کررہے ہیں۔ لیکن بلوچستان کے علاوہ دیگر چھوٹے صوبوں نے بھی ان منصوبوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انہیں دور کرنے اور سیاسی ڈائیلاگ شروع کرنے کی بجائے سی پیک کو قومی خوشحالی کے لئے ’مقدس گائے‘ کا درجہ دے کر ہر قسم کے مباحث کا راستہ روکا گیا ہے۔ اس رویہ سے سی پیک کی شہرت کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور وفاق کی اکائیوں کے درمیان بداعتمادی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ سی پیک پر سوال اٹھانے والے تمام عناصر کو ملک دشمن قرار دے کر ایک اہم اور ضروری بحث روکنے کی کوشش کی گئی ہے جو کسی بھی جمہوری نظام میں ناجائز اور غلط طریقہ کار ہے۔

سی پیک کے تحت چین سے ملنے والے قرضے مہنگے ہیں اور چینی کمپنیوں کو منصوبے مکمل کرنے کی اجارہ داری دے کر بھی اس سارے عمل کی شفافیت کو مشکوک بنایا گیا ہے۔ اسی لئے آئی ایم ایف سے معاملات طے کرتے ہوئے سی پیک قرضے، چین کی مالی امداد اور اس حوالے سے پاکستان کی مالی صلاحیت کے بارے میں سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے سوالوں کو ’استعمار کی پاکستان دشمن سازش‘ قرار دے کر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اسد عمر کی قربانی دینے کے بعد عمران خان کو اس بات کا اندازہ ہوجانا چاہئے۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ آئی ایم ایف سے جو مالی پیکج چھے ماہ پہلے لیا جانا چاہئے تھا، اس میں تاخیر سے پاکستانی معیشت اور تحریک انصاف کی حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اب بھی نئے مشیر خزانہ اور حکومت کی فوری مگر عبوری کامیابی کے لئے آئی ایم ایف کا قرضہ اور بجٹ کی ’خوشگوار‘ شکل کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ تاہم اس مشکل مرحلہ سے نکلنے کے بعد حکومت کے لئے ضروری ہوگا کہ ملک کے مالی معاملات میں متوازن اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کر کے سیاسی ہیجان بڑھانے سے گریز کیا جائے۔

حفیظ شیخ اس حد تک تو کامیاب رہ سکتے ہیں کہ وہ اسد عمر کی طرح ان دعوؤں کا جواب دینے کے پابند نہیں ہوں گے جو تحریک انصاف کے نمائیندوں نے ماضی میں کئے تھے۔ اسی طرح شاید وہ اسد عمر کی طرح روزانہ کی بنیاد پر مخالف سیاسی جماعتوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے بارے میں بیان دینے سے بھی گریز کریں گے۔ لیکن اگر عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے بیان بازی کے معاملہ میں اسد عمر کی کمی محسوس نہ ہونے دی تو حفیظ شیخ پروفیشنل ماہر معاشیات ہونے کے باوجود شاید کوئی ڈرامائی تبدیلی لانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔

پاکستانی معیشت کے حوالے سے اس ملک کے عوام اور حکمرانوں کو یکساں طور سے بعض سچائیوں کوتسلیم کرنا ہوگا۔ قومی آمدنی بڑھتی ہوئی آبادی اور ملک کو درپیش جنگ کی صورت حال کی ضرورتیں پوری کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس لئے عوام کی توقعات کو بڑھانے اور انہیں نئی نئی امیدیں دلانے کی بجائے، بچت کرنے اور سخت معاشی ڈسپلن کے چند برس گزارنے پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مقصد سستی سیاسی شہرت کے ہتھکنڈے اختیارکرنے سے پورا نہیں ہوسکتا۔

معاشی استحکام کے لئے سیاسی اتفاق رائے اور احترام کا ماحول پیدا کرنا بھی ضروری ہوگا۔ تاکہ حکومت اور اپوزیشن مل جل کر ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کا کام کرسکیں۔ اپوزیشن سے تعاون کا راستہ پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے اور مباحث کا مرکز بنانے سے حاصل ہوگا۔ حکومت کو پارلیمنٹ کے اختیار اور نظام کے بارے میں شہبات پیدا کرنے کا طریقہ بھی ترک کرنا پڑے گا۔ اسی طریقہ سے ان غیر جمہوری قوتوں کے دباؤ کا بھی سامنا کیا جا سکتا ہے جو ملک میں بادشاہ گری کو اپنا ادارہ جاتی حق سمجھنے لگی ہیں۔

عمران خان کو تسلیم کرنا ہوگا کہ حفیظ شیخ کی صورت میں انہیں کوئی جادو گر نہیں ملا جو چھڑی ہلا کر معیشت اور تحریک انصاف کے تمام مسائل حل کردے گا۔بلکہ اسے بھی چیزوں کو درست کرنے کے لئے حکومت کا درست سیاسی رویہ درکار ہوگا۔ سیاسی حکمت عملی تبدیل نہ ہوسکی تو چند ماہ بعد ایک نیا بحران عمران خان اور ملک کا منتظر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali