رزاق داؤد کے تایا سیٹھ صدیق داؤد انتخاب کیسے ہارے؟


کراچی کی میمن برادری سے تعلق رکھنے والا داؤد گروپ ایوب خان کے عہد میں پاکستان کے صنعتی اور تجارتی منظر  پر چھایا ہوا تھا۔ 1970 میں داؤد گروپ پاکستان کا امیر ترین صنعتی گھرانہ تھا۔ 1990 میں یہ گھرانہ تیسرے نمبر پر آ گیا اور 1997 میں پاکستان کے امیر ترین گھرانوں میں اس کا شمار پندرہویں نمبر پر ہوتا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ایوب حکومت کے زوال، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بھٹو حکومت کی طرف سے صنعتیں قومیانے کے بعد اس گھرانے کے مرکزی کرداروں نے زیادہ وقت ملک سے باہر گزارا اور قریب بیس برس تک کوئی نیا صنعتی یونٹ نہیں لگایا۔ ایک طویل وقفے کے بعد اس گھرانے سے رزاق داؤد قومی منظر پر ابھرے۔ انہوں نے 1999 سے 2002 تک مشرف کابینہ میں وزیر تجارت کی حیثیت سے کام کیا۔ عمران حکومت نے انہیں تجارت، سرمایہ کاری، صنعت، پیداوار اور ٹیکسٹائل کے شعبوں میں وزیراعظم کا خصوصی مشیر مقرر کر رکھا ہے۔

داؤد گروپ کی بنیاد سیٹھ احمد داؤد نے رکھی تھی۔ کاٹھیاواڑ سے تعلق رکھنے والے احمد داؤد پاکستان کے ابتدائی صنعت کاروں میں شمار ہوتے تھے۔ بمبئی میں ایک چھوٹا سا صنعتی یونٹ چلانے والے احمد داؤد نے پاکستان بننے کے بعد ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں میں ٹیکسٹائل، پٹ سن اور یارن کے شعبوں میں وسیع سرمایہ کاری کی۔ مشرقی پاکستان میں واقع کرنا فلی پیپر ملز سے پاکستان بھر کے اخبارات کی نیوز پرنٹ کی ضروریات پوری کی جاتی تھیں۔ صحافت کے صنعتی شعبے پر اجارہ داری کے ذریعے سیٹھ احمد داؤد ایوب حکومت کی پریس پالیسی میں کلیدی پرزے کی حیثیت رکھتے تھے۔ ایوب آمریت نے اپریل  1959 میں پروگریسو پیپیرز لمیٹیڈ پر قبضہ کر کے نیشنل پریس ٹرسٹ کی بنیاد رکھی تو سیٹھ داؤد نے براہ راست اخبارات کے حصص کی خرید و فروخت میں بھی حصہ لیا۔

1899 میں پیدا ہونے والے سیٹھ احمد داؤد کے دو چھوٹے بھائی صدیق داؤد اور سلیمان داؤد تھے۔ پاکستان میں انجیئنرنگ کی سب سے بڑی کمپنی ڈیسکان کے مالک رزاق داؤد سیٹھ سلیمان داؤد کے صاحبزادے ہیں۔ ایوب حکومت کے دوران داؤد گروپ آمریت کی سیاسی سرمایہ کاری میں پیش پیش تھا۔ صنعتی لائسنسوں کی خرید و فروخت اور پٹ سن کے استحصالی کاروبار سے دولت میں بے پناہ اضافہ ہونے کے بعد داؤد خاندان میں سیاسی عزائم نے بھی جنم لیا۔

سیٹھ احمد داؤد گورنر جنرل اسکندر مرزا کے ساتھ

جنوری 1965ء کے صدارتی انتخابات میں ایوب خان نے کھلی دھاندلی کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دے لی تو مارچ 1965 میں قومی اسمبلی کے انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔ ملک کے دونوں حصوں میں کل 156 نشستوں کے لئے مقابلہ تھا اور ووٹ دینے کا حق بنیادی جمہوریتوں کے ارکان کو تھا۔ گویا 80000 ووٹروں نے 156 ارکان اسمبلی کا انتخاب کرنا تھا۔ کامیابی کے لئے کسی بھی امیدوار کو چند سو ووٹوں کی ضرورت تھی۔ ہمارے موجودہ مشیر تجارت رزاق داؤد کے تایا سیٹھ صدیق داؤد کراچی کے ایک حلقے سے کنونشن مسلم لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے تھے۔ اس وقت روز نامہ جنگ کراچی میں نیوز ایڈیٹر کے طور پر انعام عزیز کام کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی یاد داشتوں میں اس انتخاب اور بالخصوص سیٹھ صدیق داؤد کی انتخابی مہم پر دلچسپ روشنی ڈالی ہے۔ آئیے ان ہی کے الفاظ میں اس کا احوال پڑھتے ہیں۔

“ایوب خاں کے صدر منتخب ہونے کے بعد مارچ 1965 میں قومی اسمبلی کا الیکشن ہوا۔ اس الیکشن میں بھی بی ڈی ممبرز کو ووٹ ڈالنا تھے۔ دولت، دھونس دھاندلی کا کاروبار پھر گرم ہو گیا۔ بی ڈی ممبروں کے ووٹ کا بھاﺅ سٹاک مارکیٹ کی طرح روز کھلتا اور بند ہوتا تھا۔ ہر حلقے میں درجنوں امیدوار تھے اور ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق ووٹ کا بھاﺅ متعین کرتا اور دوسرا اس سے چار ٹکے اور بڑھا دیتا۔ اس انتخابی مہم میں پاکستان کے سب سے بڑے سرمایہ دار سیٹھ احمد داﺅد بھی اسی طرح شریک تھے کہ ان کے چھوٹے بھائی صدیق داﺅد حلقہ نمبر 8 سے الیکشن لڑ رہے تھے۔

سیٹھ داؤد جاپان کی شہزادی سے ہاتھ ملاتے ہوئے

سیٹھ احمد داﺅد حکومت کے قریبی حلقوں میں اس لیے شمار کئے جاتے تھے کہ انہوں نے ملک کے مختلف سرمایہ داروں کی مدد سے نیشنل پریس ٹرسٹ قائم کرایا تھا اور پھر یہ تمام ٹرسٹی استعفے دے کر ٹرسٹ حکومت کے حوالے کر کے الگ ہو گئے تھے۔ ان سرمایہ داروں نے اس طرح حکومت کو کروڑوں روپے کی امداد دی تھی اور حکومت کو ان سرمایہ داروں سے نجات مل گئی تھی جو یکے بعد دیگرے پاکستان ٹائمز وغیرہ کو خریدتے، چند مہینے کا نقصان اٹھاتے اور پھر کسی اور کے ہاتھ یہ ادارے فروخت کر کے جان چھڑا لیتے تھے۔

میری نظر اس انتخابی مہم میں صدیق داﺅد پر پڑی۔ ان کے مقابلے میں کراچی مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری امیدوار تھے۔ یہ حضرت کراچی کے ایک چھوٹے سے وکیل تھے اور ظاہر ہے کہ ووٹ خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ میں نے کسی اور شخص سے بات کئے بغیر پولنگ کے روز چھپنے والے اخبار میں رات گئے سنگل کالم کا ایک باکس آئٹم جڑ دیا۔ خبر اس طرح لکھی گئی تھی کہ ’آخری رات بھاﺅ اترتے اور چڑھتے رہے چنانچہ حلقہ 8 میں ووٹ کا بھاﺅ بیس ہزار فی ووٹ پر بند ہو گیا جبکہ باقی حلقوں میں ووٹ کا بھاﺅ چار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں تھا‘۔ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اس حلقے میں کون امیدوار ہے اور ووٹ کی اتنی زیادہ قیمت کیوں مقرر کی گئی ہے۔

حلقہ نمبر 8 کے بارے میں یہ خبر کیا شائع ہوئی کہ گویا ایک طوفان سا آگیا۔ صبح سویرے بی ڈی ممبر یکے بعد دیگرے اخبار جنگ بغل میں دبائے سیٹھ داﺅد کے گھر جا پہنچے اور بڑی التجا کے لہجے میں کہا سیٹھ آج تو بیس ہزار کا بھاﺅ ہے۔ سیٹھ نے خبر دیکھی تو تاﺅ چڑھ گیا ۔ میر صاحب کے گھر پر فون گھمایا اور ماں بہن کی کون سی ایسی گالی تھی جو سنا نہ دی ہو۔ سیٹھ نے اعلان کیا کہ میں یہ انتخاب ایمان داری کی بنا پر لڑ رہا ہوں کسی کو پیسہ نہیں دوں گا۔ اس کے ساتھ ساتھ داﺅد نے میر صاحب کو ایک طرح کا حکم دیا کہ فوراً دفتر جاﺅ اور ضمیمہ شائع کرو کہ ووٹ کے بھاﺅ کی غبر غلط چھپی ہے وغیرہ وغیرہ۔

میں جب دوپہر میں دفتر پہنچا تو مجھے فوراً میر صاحب نے طلب کیا۔ ویسے ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور شرارت بھی …. ’آپ نے سیٹھ داﺅد کو مروا دیا‘۔ میر صاحب کہنے لگے۔ صبح سے گالیاں کھا رہا ہوں۔ سیٹھ صاحب ہیں کہ خاموش نہیں بیٹھتے۔ اب تک کوئی بیس پچیس مرتبہ فون کر چکے ہیں۔ شام کو نتیجہ نکلا تو مسٹر صدیق داﺅد شکست کھا گئے تھے انہیں اگر کوئی ووٹ ملے تھے تو وہ صرف ان لوگوں کے جو ان کے قریبی دوست یا عزیز تھے۔ حلقہ آٹھ سو ووٹوں کا تھا اور بے چارے کے ووٹوں کی تعداد ایک سو سے بھی کم تھی۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).