بلاول بھٹو انگریزی زبان ہی میں تقریر کر لیا کریں


بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اکثر زبان غیر یعنی انگریزی میں تقریر کیا کرتے تھے۔ انگریزی زبان سے بہت کم لوگ واقف تھے۔ مگر اس کے باوجود لوگ ساکت و جامد پورے انہماک اور یکسوئی سے قائد کی تقریریں سنا کرتے تھے۔ ایسے ہی کسی جلسے کے دوران مجمع پوری توجہ اور دھیان سے قائد کی تقریر سننے میں مگن تھا۔ حاضرین میں ایک عمر رسیدہ بابا جی بھی نہایت دلچسپی اور محویت کے عالم میں قائد کی تقریر سن رہے تھے۔ ایک رپورٹر نے بابا جی سے پوچھا کہ آپ کو قائد اعظم کی باتوں کی سمجھ آتی ہے؟ بابا جی نے ترنت اور برجستہ جواب دیا کہ سمجھ تو نہیں آتی مگر مجھے یقین ہے کہ یہ آدمی جو کچھ کہہ رہا ہے، سچ کہہ رہا ہے۔

عطا اللہ شاہ بخاری کے معجز نما اور سحر طاری کر دینے والے خطابات سے کون واقف نہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ عشا کے بعد اپنی تقریر شروع کرتے تھے اور فجر کی اذان تک لوگ بت بنے ان کی دل کش اور چشم کشا تقریریں سنتے رہتے تھے۔

مولانا الطاف حسین حالی ہمار ے دردمند قومی شاعر تھے۔ ان کا مسدس بہت مشہور ہوا، جس میں انہوں نے مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان بڑے درد انگیز پیرائے میں منظوم کی ہے۔ یہ مسدس بہت چھپا۔ چھپنے کے فوری بعد برصغیرکے علما و مشائخ اور مفتیان کرام و واعظان خوش بیان نے اس کے بندوں کو اچک لیا تھا اور پھر لہک لہک کر انتہائی سوز و گداز سے اسے جلسوں، مسجدوں اور دوسرے مجمعوں میں پڑھتے رہتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ سننے والے سمجھ کر اور اکثر بے سمجھے ہی دھاڑیں مار مار کر روتے تھے۔

کہنا ہم یہ چاہتے ہیں کہ تقریر کی اثر انگیزی کے لیے اس کا سمجھنا ضروری نہیں۔ بلکہ جو تقریر اور شعر زیادہ دقیق، مبہم اور حقیقت سے دور ہو گا، لوگ اسی قدر اس پر زیادہ عش عش کریں گے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کے بعض اشعار کا بھی یہی معاملہ ہے، ان کے جو شعر زیادہ گنجلک اور ابہام والے ہوتے ہیں انہیں زیادہ پذیرائی ملتی ہے۔ کسی نقاد نے شاید اسی حوالے سے کہا تھا کہ عظیم ادب میں تشکیک پائی جاتی ہے۔ اپنے مرزا غالب بھی تو فرما گئے ہیں کہ مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا۔۔۔

اس کے برعکس تقریر کے نام پر دماغ کی دہی اور خیالات و افکار کی چٹنی بنانے والے کچھ ستم ظریف ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو بے ربط، بے موقع اور بے مغز خیالات کے بے سروپا سلسلے کو تقریر دل پذیر کہنے پر مصر ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے لیے بھی ہمارے مرزا غالب کچھ یوں فرما گئے ہیں۔

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

دوسری طرف اختصار اور سادگی کی تاثیر سے بھی انکار ممکن نہیں۔ یاس یگانہ چنگیزی نے کہا تھا

بات آدھی مگر اثر دونا

اچھی لکنت زبان میں آئی

یہ تمام باتیں ہمیں قومی اسمبلی میں کی گئی بلاول بھٹو کی قومی زبان میں تقریر کے حوالے سے یاد آئی ہیں۔ اس سے پہلے ان کی قومی اسبملی میں انگریزی زبان میں کی جانے والی تقریر کے متعلق جناب وزیراعظم نے یہ اعتراض کیا تھا کہ ہمارے ہاں انگریزی زبان سمجھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس لیے ان کا اردو کے بجائے انگریزی زبان میں تقریر کرنا جذبہ حب الوطنی اور قومی و ملی روایات کے منافی ہے۔

وزیراعظم نے شاید یہ بات اس لیے کہی تھی کہ بلاول نے اس تقریر میں حکومت اور عمران خان پر بڑی سخت تنقید کی تھی۔ وزیر اعظم کے خیال میں بلاول کی کمزوری یہ ہے کہ وہ اردو زبان میں روانی اور سہولت سے تقریر کرنے میں طاق نہیں ہیں۔ دوسرا وہ ہر تقریر میں انہیں سلیکٹڈ وزیر اعظم کا طعنہ دیتے ہیں جو خود ان کے لیے اور ان کے چاہنے والوں کے لیے رسوائی اور جگ ہنسائی کا باعث بنتا ہے۔ ان کے خیال میں بلاول کو سلیکٹڈ کا اردو ترجمہ کرنے میں بالکل اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کا خود خان صاحب لفظ خاتم اللنبیین کی ادائیگی کے دوران کر چکے ہیں۔ لہٰذا نہ بلاول اردو میں تقریر کریں گے نہ وہ لفظ سلیکٹڈ کہہ سکیں گے اور نہ وزیر اعظم کی بھد اڑے گی۔ لیکن بلاول کے پاس بھی اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی میراث ہے۔

سو انہوں نے کپتان کے چیلنج کو بخوشی قبول کرتے ہوئے گذشتہ روز قومی زبان میں اسمبلی میں تقریر کی اور بقول شخصے ٹکڑے اڑا کے رکھ دیے۔ ان کی اس تقریر کی گونج اندرون ملک کے ساتھ بیرون ملک بھی پہنچی اور خوب پہنچی۔ اس تقریر کے اثرات تہران میں کپتان کی اپنی تقریر پر بھی پڑے اور انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جرمنی اور جاپان کی سرحدوں کو باہم ملا دیا جن کے درمیان ہزاروں میل کی مسافت ہے۔

جب سے کپتان اور ان کے حامیوں نے بلاول کی تقریر سنی ہے، وہ اپنی اس غلطی پر پچھتا رہے ہیں جس میں انہوں نے بلاول کو اردو زبان میں تقریر کرنے کا چیلنج کیا تھا۔ سنا ہے پی ٹی آئی والوں نے اپنے کپتان کی مشاورت سے بلاول بھٹو زرداری سے درخواست کی ہے کہ وہ کپتان کی باتیں زیادہ دل پر نہ لیں اور انگریزی زبان میں ہی تقریر کر لیا کریں۔ ہم انہیں کبھی چیلنج نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).