”مسجد الاسلام“ اور ہم سب


کیا ہم سب نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ہم سب کو اپنے اپنے رویوں پر غور کرنا ہو گا۔ اگر میں، آپ یا کوئی بھی شخص کسی بھی موضوع پر کوئی ایسی رائے قائم کرتا ہے جس کی بنیاد علم و دانش کی بجائے ذاتی حب و بغض اور مفاد کو مد نظر رکھ کر اٹھائی جاتی ہے تو ایسا شخص یقینا ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کا معمار ہی کہلائے گا۔

جانبداری، ہٹ دھرمی، بغض و عناد اور مفاد پرستی انسان اور حق و حقیقت کے درمیان ایک ایسی بلند و بالا دیوار کھڑی کر دیتی ہے جس کی موجودگی میں علم و دانش کے چشمہ آب حیات تک پہنچنا تو درکنار، اس کی ایک بوند تک کا حصول مشکل ہوجاتا ہے۔

لیکن جب علم و دانش کے چشموں تک پہنچنا مقصد و ہدف نہ ٹھہرے تو پھر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا ایک منافع بخش کاروبار بن جایا کرتا ہے یقین نہیں آتا تو پورے عالم اسلام پر نگاہ دوڑا لیں جہاں ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا اتنا منافع بخش کام ہے کہ ایک صنعت کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ جبکہ دوسری طرف علم و دانش کے ان چشموں کو جو ”مسجد الاسلام“ سے پھوٹے تھے کو خشک سالی کا سامنا ہے اور جب علم و دانش کے چشمے خشک ہونے لگیں تو ”مسجد الاسلام“ کو بھی شیعہ، بریلوی، اہل حدیث، دیوبندی اور نا جانے کیا کیا بنا دیا جاتا ہے۔

میں کسی بھی مکتب فکر کے تشخص اور کلچر کا مخالف نہیں ہوں لیکن میں سنی، شیعہ اہل حدیث یا بریلوی ہو سکتا ہوں، مسجد کی شناخت کی بنیاد فرقہ ہرگز نہیں بن سکتا۔ مسجد رب العالمین کا گھر ہے کسی فرقے، شخص یا قوم کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اس کا مالک صرف رب العالمین ہے اور مسجد انسانی تعلیم و تربیت کا ایسا ادارہ اور درسگاہ ہے جس کے پہلے معلم فخر انسانیت رحمتہ اللعالمین حضرت محمد مصطفی ص ہیں اس لحاظ سے مسجد کا کوئی فرقہ نہیں ہوتا مسجد صرف مسلمان ہوتی ہے تو پھر پاکستان میں بہت سی مساجد میں سب مسلمان بغیر کسی روک ٹوک کے کیوں داخل نہیں ہو سکتے؟ اس لئے کہ ایسا ہونے کی صورت میں ڈیڑھ اینٹ مسجد کی صنعت سے وابسطہ لوگوں کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے۔

اسی لئے مسجدوں سے وابسطہ لوگوں نے کبھی بھی اسلامی تاریخ و ثقافت کو مد نظر رکھتے ہوئے ”مسجد الاسلام“ کے حقیقی خدوخال واضح کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس اہم ترین تربیتی مرکز کو فرقوں کا رنگ دے کر علم و دانش کے دروازے بند کر دیے ہیں ”مسجدالاسلام“ کے حقیقی خدوخال اس وقت تک واضح ہو بھی نہیں سکتے جب تک ان میں مفاد پرست اور علم و دانش سے نا آشنا لوگ براجمان رہیں گے۔ کیا آج پاکستان میں یہ سوچا جا سکتا ہے کہ ہر مسجد میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپنے نظریے اور عقیدے کے مطابق مذہبی عبادات انجام دے سکتے ہیں ہرگز نہیں بلکہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خاص فرقے کی مسجد میں ہی جانا پڑے گا ہمارا حال تو یہ ہے کہ اگر کبھی کسی مخالف فرقے کا مولوی کسی دوسرے مکتب فکر کی مسجد میں چلا جائے تو یہ ایک خبر بن جاتی ہے اور پھر اس بنیاد پر داد و تحسین حاصل کرنے کے جتن کیے جاتے ہیں اور اس صورت حال میں ”مسجد الاسلام“ زبان حال سے مولویوں کی خو د نمائی پر آنسو بہاتی نظر آتی ہے وہ مسجد کہ جس کے معلم اول کے دور میں غیر مسلم تک اس کا رخ کرتے تھے اور اپنی علمی تشنگی بجھاتے تھے آج اس کی عالمگیر یکجہتی کے پہلو کوبھی انتہائی محدود کر کے، نام و نمود اور کمائی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔

اسی طرح کیا آج یہ سوچا جا سکتا ہے عالم کہلوانے والا مسجد میں بیٹھ کر وجود باری کے متعلق کیے جانے والے سوال کا جواب دے گا یا اس کو ملحد ہونے کا فتوی عطا کرکے مسجد سے نکل جانے کا حکم دے گا۔

آج قافلہ انسانی علم و دانش کا دامن تھام کر مسلسل ترقی کی جانب محو سفر ہے اس صورت حال میں ہم نے اپنے تربیتی مراکز کے اصل کردارکو نا صرف مسخ کیا ہے بلکہ اسے معدوم کر کے رکھ دیا ہے ان میں سب سے اہم مسجد وہ تربیتی ادارہ ہے جو صرف مسلمانوں نہیں بلکہ پوری بنی نوع انسان کی مشترکہ میراث ہے لیکن بدبختی سے اس ادارے کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو غیر مسلموں کو اسلام کے پیغام کی طرف راغب کیا کرتے الٹا فرقہ ورانہ آگ کو بھڑکا رہے ہیں البتہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو فرقہ ورانہ نفرت کا پرچار نہیں کرتے لیکن ان کے ہاں بھی مسجد کے اصل کردار کو فراموش کر دیا گیا ہے اس کی بڑی وجہ مالی مفادات کا تحفظ ہے۔

موجودہ دور میں مسجد الحرام اور مسجد النبی ص اس حوالے سے ضرور مثال ہیں کہ وہاں کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے مذہبی طریقے کے مطابق مذہبی عبادت انجام دے سکتے ہیں لیکن وہاں پر بھی ایک خاص مکتب فکر کی ترجمانی اور تبلیغ مسجد کے اسلامی تصور سے متصادم ہے اس حوالے سے مسجد النبی ص میں خاص وضع قطع کے نام نہاد علما کا مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لوگوں کے ساتھ رویہ اسلامی اصول تبلیغ سے ہرگز سازگار نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی بہت سی ویڈیوز میں اس رویے کی جھلک ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

”مسجد السلام“ کے درست کردار اور تصور کو اجاگر کرنا اور مسجد میں براجمان مولوی کے خود ساختہ تقدس کے ہالے کو توڑنا کس کا کام ہے؟ ریاست کا؟ مفکرین کا؟ محدثین کا؟ مفسرین کا؟ فقہا کا؟ ججز کا؟ صحافیوں کا؟ سیاستدانوں کا؟ اینکرز کا؟ سپہ سالاروں کا؟ میرا؟ یا ہم سب کا؟ مجھے نہیں معلوم لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ”اگر مسجد السلام“ پر چڑھائے فرقوں کے خول کو اتار کر اس کا اصل تشخص عطا کیا جائے تو یقینا ہمارا معاشرہ امن و امان کا گہوارہ بن جائے گا۔ پھر ہمیں اخلاقی، سیاسی، سائنسی مثالوں اور نمونوں کے لئے یورپ کی طرف نہیں دیکھنا پڑے گا پھر ہمارے لئے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کا رویہ بالکل بھی غیر معمولی محسوس نہیں ہو گا اس لئے کہ ا س سے زیادہ مضبوط کردار کے لوگ اور علم و دانش کے متلاشی ”مسجد الاسلام“ سے تربیت پائیں گے۔

مسجد السلام کا قیام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے اگر کبھی پاکستان میں سنی، شیعہ، اہل حدیث یا بریلوی مسجد کی بجائے ”مسجد الاسلام“ کا قیام عمل میں آتا ہے تو اس کا دھندلا سا منظر کیا ہو گا ملاحظہ فرمائیں۔

”مسجدالاسلام“ ایک ایسی مسجد ہو گی جس میں نا صرف، شیعہ بریلوی، اہل حدیث ویوبندی، بلا روک ٹوک نماز پڑھ سکیں گے بلکہ لوگوں کی رہنمائی کے لئے مذکورہ مکتب فکر کے اسکالرز بھی مسجد ہی میں موجود ہو ں گے جو مل کر دنیا میں موجود فکری رجحانات پر فتوی لگانے کی بجائے خالص علمی بنیادوں پر ان کا جائزہ لیں گے۔ اور سب مل کر ملحد لوگوں کو دلائل دیں گے۔ مذکورہ مکتب فکر کے اسکالرز مسجد السلام کے متفقہ ضابطہ اخلاق پر عمل کی وجہ سے آپس میں جھگڑا نہیں کریں گے۔ ”مسجد الاسلام“ ایسی مسجد ہو گی جس میں اختلافی بات کی جا سکے گی لیکن انتہائی شائستہ اور علمی انداز میں جس سے اختلاف کو ہوا نہیں دی جائے گی بلکہ اپنے دلائل سامنے رکھے جائیں گے۔

جمعہ کے خطبہ کے لئے ٹائم ٹیبل اس انداز میں ترتیب دیا جائے گا کہ تمام مکتب فکر کے علما کو موقع مل سکے گا۔ اس امر کے حصول کے لئے تمام مکتب فکر کے جید علما سے فتوی لیا جا سکتا ہے کہ وہ دوسرے مکتب فکر کے عالم کے پیچھے نماز جمعہ پڑھ سکتے ہیں (اس کی پہلے سے کافی مثالیں موجود ہیں )

”مسجد الاسلام“ ایسی مسجد ہو گی جس میں ہر مکتب فکر کو اپنی ثقافتی شناخت برقرار رکھنے کی آزادی ہوگی۔

مجھے نہیں معلوم پاکستان میں ”مسجد الاسلام“ کے قیام کے لئے کتنے شیعہ بریلوی، اہل حدیث دیوبندی دینی اسکالرز ایک ہی مسجد میں ایک ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہو ں گے لیکن یہ بات مذکورہ سب لوگ جانتے ہیں کہ جس مسجد کی بنیاد مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ ڈالنے پر رکھی جاتی ہے، ضرار کہلا تی ہے اور ”مسجد الاسلام“ کے پہلے معلم اس کو منہدم کرنے کاحکم دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف ”مسجد الالسلام“ مسلمانوں کے اتحاد و وحدت کی عملی تصویر پیش کرتی ہے اس لئے ہم سب کو کم از کم پاکستان میں ایک ”مسجد الاسلام“ کے قیام کے لئے ضرور کوشش کرنی چاہیے جب تک ”مسجد السلام“ کا قیام عمل میں نہیں آتا تب تک ”ہم سب“ پر اختلافات کے باوجود، ایک دوسرے کو سمجھنے اور مل کر چلنے کا عہد کرتے ہیں کہ میرے ادنی خیال میں ”ہم سب“ مسجد الاسلام ”کے قیام کی طرف پہلا عملی قدم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).