زندگی کیسے گزاری جائے؟


ہم میں سے ہر ایک نے اپنے مستقبل کے لیے خواب دیکھ رکھے ہوتے ہیں اور ان خوابوں کو حقیقت کا رُوپ دینے کے لیے ہم کچھ نہ کچھ منصوبہ بندی بھی کرتے ہیں۔ کچھ خواب تو بچپن سے ہی ہمارے ذہنوں میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ جوں جوں عمر بڑھتی ہے ہمارے خوابوں کی تعداد اور نوعیت میں تبدیلی آتی جاتی ہے۔ تعلیم کے حصول کا مقصد بھی انھیں خوابوں کو پُورا کرنا ہوتا ہے۔ خواب کیا ہیں؟ بس ایک خوشحال اور پرمسرت زندگی کی حسرت ہوتی ہے۔ یک اچھا روزگار، پختہ اور پُرسکون مکان، بیوی بچے وغیرہ وغیرہ، کچھ ایسی ہی خواہشیں ہوتی ہیں جو ہماری زندگی کا مقصد بن جاتی ہیں۔

ہماری ساری زندگی انہی خواہشات کے گرد گھومتی رہتی ہے۔ صبح سے شام تک بلکہ) کچھ لوگ رات تک ( انہی خوابوں کی تعبیر کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر دوسرے شخص کی زندگی کا یہی معمول ہے۔ ایک فیکٹری کے مزدور سے لے کر ٹھنڈے کمرے میں بیٹھے سافٹ ویئر انجینیر تک، ایک پھل فروش سے لے کر ایک فیکٹری مالک تک سب اس دھن میں جتے ہوئے ہیں۔ ذرا نظر دوڑایئے، معاشرے میں ہر طرف ایک بھاگ دوڑ ہے۔ ہر کسی کو اپنے خوابوں کی تکمیل کرنی ہے۔ ہرکوئی اپنے اور اپنے کنبے کی فکر میں ہے۔

اس ساری بھاگم بھاگ میں ہماری زندگی ایک روٹین کا شکار ہو جاتی ہے۔ صبح سے لے کر رات تک ہم کسی پروگرامڈ مشین کی طرح کام کرتے ہیں۔ رات کو مشین بند ہوئی اور صبح پھر کسی نے چالو کر دی۔ عوام کی اکثریت تو اسی معمولات اور یکسانیت کی عادی ہو جاتی ہے۔ لیکن معاشرے میں ایسے افراد بھی ہیں جن کو بار بار یہ احساس ہے ہوتا ہے کہ ’یہ کیا زندگی ہے یار؟ ‘ ، ’میں تو ایک مشین بن کر رہ گیا ہوں ”، “ لگتا ہے زندگی بے مقصد سی ہو گئی ہے ”۔ اور بسا اوقات یہ تذکرہ ہم خود سے بھی اور اپنے دوستوں سے بھی کرتے ہیں کہ یار ہم تو کولہو کے بیل بن کر رہ گئے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ گلہ کچھ مناسب بھی لگتا ہے۔ صبح اٹھنا، کام کے لیے نکل جانا، رات کو تھک کر بستر پر گر پڑنا، صبح اٹھ کر پھر وہی معمول۔ معذرت کے ساتھ! دن بھر کا یہ شیڈول تو ایک جانور کا بھی یہی ہوتاہے۔ وہ بھی صبح اٹھتا ہے۔ مالک کے ساتھ کام پر نکل جاتا ہے۔ رات کو واپس آتا ہے اور اگلے دن پھر وہی کچھ۔

ذرا غور کریں۔ ہمارا دورانیہ حیات (life cycle) کیا بن چکا ہے؟ پیدا ہونا، نشونما پانا، روزی کرنا، افزائش نسل کرنا، مر جانا۔ لیکن یہی دورانیہ حیات (life cycle) تو ایک جانور کا بھی تو ہے۔ ایک انسان اور ایک جانور کی زندگی میں کچھ تو فرق ہونا چاہیے۔

کائنات میں انسان کو ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ خدا نے اسے اشرف المخلوقات کے عظیم منصب پر فائز کیا ہے۔ اس انسان کی زندگی کا روڈمیپ (road map) بھی تو اس کے منصب اور مقام کے مطابق ہونا چاہیے۔ انسان کی زندگی بے مقصد نہیں ہو سکتی۔ اور جن چیزوں کے لیے ہم ساری زندگی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں وہ ہماری ضروریات ہیں لیکن مقصد نہیں۔ بطور حضرت انسان ہمارا مقصد حیات کچھ اور ہے اور ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

انسان کو قدرت نے ایسی خصوصیات سے نوازا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ دوسری مخلوقات سے ممتا ز حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ انسان کی ایک بنیادی خصوصیت رائے کلی ہے یعنی انسان اپنے علاوہ دوسرے انسانوں کے بارے میں بھی سوچتا ہے۔ انسان کا خاصہ یہی ہے کہ وہ صرف اپنے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ وہ دوسرے انسانوں کے لیے سوچتا ہے اوراکثر اوقات اپنی جان و مال کی پروا کیے بغیر دوسرے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کرتا ہے۔ جانوروں کی زندگی کا محور ان کی اپنی ذات اور بچے ہوتے ہیں جبکہ انسان کا مقصد حیات جانوروں سے اعلی ہونا چاہیے۔

خیر یہ مسلئہ شاید عام عوام کا نہیں ہوتا ان بیچاروں کے لیے تو دو وقت کی روٹی ہی کل مقصد ہوتی ہے۔ لیکن معاشرے کے متوسط، سمجھدار اور تعلیم یافتہ افراد کو اس پر سوچنا چاہیے۔ ان کو اپنی زندگی کے لیے کوئی نہ کوئی نصب العین طے کرنا چاہیے۔ اپنی ضروریات کے ساتھ ساتھ اپنی اجتماعی ذمہ داری کو بھی سمجھنا چاہیے۔

ایک عام انسان اور ایک عظیم انسان میں یہی تو فرق ہے کہ عام انسان اپنی نفسانی خواہشات کے لیے تگ و دو کرتا رہتا ہے جبکہ ایک عظیم انسان کسی اعلی مقصد کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ زندگی تو ویسے بھی گزر جاتی ہے تو کیوں نہ کسی اعلی مقصد کے حصول میں گزرے۔ اور آج کے دور میں اس سے بڑا مقصد کیا ہو گا کہ ہم خود کے خول سے نکل کر اجتماع کے لیے سوچیں۔ بطور انسان ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں اور اس معاشرے کی بہتری کے لیے ہم سب کو اجتماعی طور پر اپنا فرض ادا کرنا ہے۔

اپنی اس معمول کی زندگی سے ہٹ کر اپنی زندگی کا کوئی مقصد طے کرنا چاہیے اور اس مقصد کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیسا مقصد اپنے لیے طے کرتے ہیں۔ ایسا مقصد ہو کہ ہر ہونے والی صبح آپ کو اس مقصد کے حصول کے لیے متحرک کر دے۔

بطور انسان ہمارے لیے اس سے بہتر کیا ہوگا کہ ہم اپنی نفسی خواہشات سے نکل کر دوسرے انسانوں کی بہتری اور فلاح کے لیے کوئی مقصد طے کریں۔ جب معاشرے میں خود غرضی اور نفسا نفسی کا عالم ہو تو وہاں تو خدمت ا انسانیت جیسے اعلی مقصد کو زندگی کا نصب العین بنانا آج کی سب سے بڑی نیکی ہے۔ خود کے لیے تو سب جیتے ہیں آئیے ہم دوسروں کے لیے جینے کو اپنا مقصد بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).