پولیو کی تاریخ اور پاکستان کی حالت زار


1950 سے پہلے تقریبا ہر سال امریکہ میں 15 ہزار بچے پولیو کا شکار ہوا کرتے تھے۔ امریکہ نے 1950 کے بعد 1955 میں پولیو ویکسینیشن ( پولیو قطرے ) پر کام شروع کیا اور نتیجتاً 1960 تک پولیو کیسز کی تعداد 100 تک رہ گئی اور 1970 میں یہ تعداد گھٹ کر 10 رہ گئی تھی۔ 1979 کے بعد سے لے کر اب تک امریکہ میں تک ایک بھی پولیو کا کیس سامنے نہیں ایا۔

1988 تک دنیا بھر میں ہر سال 3 لاکھ 50 ہزار بچے پولیو وائریس کا شکار ہوا کرتے تھے۔ اس حساب سے روزانہ 1000 بچے پولیو وائرس کا شکار ہوتے تھے۔ امریکہ کے کامیاب پولیو پروگرم کو دیکھتے ہوئے گلوبل پولیو ایراڈیکیشن پروگرام 1988 میں شروع ہوا۔ اس پروگرام کے شروعات سے لے کر اب تک 200 کے قریب ممالک میں تقریباً 2.5 ارب بچوں کو پوری دنیا میں پولیو کے قطرے پلائے جا چکے ہیں۔

دنیا میں تقریباً تمام مملک سے پولیو کا خاتمہ ہو چکا ہیں لیکن پاکستان ان تین بد قسمت مملک میں شامل ہے جہاں اس دور جدید میں بھی ہر سال پولیو کے کیسیز سامنے اتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کا پروگرم 1994 میں شروع ہوا۔ 1990 کے اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں 20 ہزار کیسز پولیو کے رپورٹ ہوئے تھے۔ اور یہ تعداد 1994 تک جاری رہی۔ جبکہ 2017 میں پاکستان میں یہ کیسیز کم ہو کر صرف 8 رہ گئے تھے۔

پاکستان میں اس پروگرم کو چلانے میں ہر حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا رہا لیکن ہر حکومت نے انتہائی موثر طریقے اس پروگرام کو جاری بھی رکھا۔ خاص کر 2013۔ 14 میں خیبر پختونخواہ اور سابقہ فاٹا میں طالبان کے اثرو رسوخ کی وجہ سے خیبر پختونخواہ میں وہ نتائج نہیں حاصل کیے جا سکے جو باقی صوبوں میں حاصل کیے گئے۔

عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف نے جب 2013 میں خیبر پختونخواہ کی حکومت سنبھالی تو اس وقت 2014 تک پولیو کیسز کی تعداد اس صوبے میں 68 تھی جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صرف 5 کیسیز رہورٹ ہوئے۔ عمران خان نے اس وقت علماء کرام کی مدد سے انسداد پولیو مہم شاندار طریقے سے دوبارہ لانچ کیا اور اپنے ساتھ مولانا سمیع الحق مرحوم کو بھی شامل کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2018 تک کے پی کے میں پولیو کیسیز کی تعداد صرف 2 رہ گئی۔

اپریل 2019 میں کے پی کے حکومت نے تین روزہ پولیو مہم شروع کی تو اس دفعہ پشاور کے کچھ لوگوں نے اس پروگرم کے خلاف ایک سازش سے ایک منظم پروپیگنڈہ چلایا جس سے تقریباً صرف لیڈی ریڈینگ ہسپتال میں 3 ہزار بچے خوف کے مارے لائے گئے۔ بچوں کے وارڈ کے انچارج ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ کسی بھی بچے میں اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ وہ پولیو کے قطروں سے متاثر ہوا ہے۔

اس منظم گرو نے پاکستان اور خیبر پختونخواہ کے اندر ایک بہترین صحت کے پروگرام کے خیلاف بیت گھٹیا مہم چلائی۔ اس میں فیک ویڈیوزسے لے کر فیک خبروں تک سب شامل رہا اور ایک ہجوم نے تو ایک لوکل ہسپتال تک جالا ڈالا۔ حکومت کو ان عناصر کے خیلاف کیسیز درج کرنے چاہیے اور جو بھی اس می۔ ملوث ان سب کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔
( ریسرچ۔ گلزار خان)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).