انتہا پسندی کی جڑیں


مذہبی انتہا پسندی کے حامیوں کے تعداد اچھی خاصی ہے جو مذہبی انتہا پسندی پر تنقید سے متاثر نہیں ہوتے اور یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ انتہا پسندی کی واحد شکل نہیں ہے۔ یہ نکتہ درست ہے اگرچہ ایمان اور عقائد پر مبنی عدم برداشت کو الگ رکھ کر بھی سمجھنے کی کوشش کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن ایک مختصر جائزہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انتہا پسندی کی مختلف شکلوں کی جڑیں ایک ہی ہیں

۔ پاکستان کے ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے شدت پسندی کی ایک تعریف یہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ دوسرے لوگوں کے طبقات، مذہب، کلچر، روایات کے خلاف کبھی نہ ختم ہونے والی نفرت، اقلیتی برادریوں اور خواتین کے حقوق کی مخالفت، انہیں بزور طاقت اور تشدد اور کبھی کبھار دہشت گھر حملوں کے ذریعے جھکنے پر مجبور کرنے کا نام ہے۔ پاکستان میں شدت پسندی کا شکار ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ محکمہ شماریات اور پنجاب کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کے تعاون سے یونائیٹڈ نیشنز پاپولیشن فنڈ کے سروے کی ایک حالیہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب میں عورتوں کی ایک تہائی تعداد جن کی عمر 15 سے 64 سال تک ہے تشدد کا نشانہ بنی ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔

تقریباً ہر روز، میڈیا کسی خاتون کے جلائے جانے یا مارے جانے کی رپورٹ دیتا ہے۔ مرد کی عزت کی خاطر عورتوں کو مارنے کی روایت ایسے علاقوں تک پھیل گئی ہے جہاں کسی کو ان چیزوں کا علم بھی نہیں تھا۔ عورتوں پر اپنی پسند کی شادی، جہیز کے مطالبات پورے کرنے میں ناکام ہونے پر اور نامناسب لباس پہن کر باہر جانے اور ہیئر سٹائل بنانے جسے عجیب و غریب بہانے بنا کر حملے کیے جاتے ہیں۔ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں بچیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ مزدور خاندانوں، زراعت میں یا اینٹ کی بھٹیوں یا دوسرے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے خاندانوں کی عورتوں اور بچیوں پر کئی طرح کی زیادتیاں کی جاتی ہیں۔ ان کی مزدوری کا استحصال کیا جاتا ہے، انہیں کہیں جانے کی آزادی نہیں دی جاتی، وہ متبادل ملازمت حاصل نہیں کر سکتیں، اور انہیں اغوا اور جنسی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مسلمان خواتین کی نسبت غیر مسلم عورتوں اور بچیوں کو زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور جو شہری اب ریاست کی طرف شیڈول کاسٹ ذاتوں کے طور پر شناخت کیے جاتے ہیں، وہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں اور دیگر غیر مسلم گروہوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تشدد کا شکار بنتے ہیں۔

اوپر بیان کیے گئے درجے کے علاوہ ایک اور بڑا گروہ انتہا پسندی کے تشدد سے متاثر ہوتا ہے۔ سٹریٹ چلڈرن کی ایک بڑی تعداد معاشی استحصال اور جسمانی اور جسنی زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔ گھریلو ملازمین کی تعداد جس مختلف اقسام کی زیادتیوں کا نشانہ بنتے ہیں کچھ عرصے سے بڑھ رہی ہے۔ ریاست سکولوں مین جسمانی سزا کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایک دن ایک چھوٹی بچی چھت سے گرنے (یا کودنے) کے بعد مر گئی۔ وہ سکول سے چھٹکارا چاہتی تھی جہاں اسے پڑھائی میں پیچھے رہنے کی وجہ سے بے رحمی سے مارا جاتا تھا۔ اس کی ماں نے اس کی قابل رحم حالت میں اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے ایک اندھیرے کمرے میں پھینک کر اس کی اذیت میں اضافہ کیا۔

زبردستی اغوا انتہا پسندی کی بدترین شکلوں میں سے ایک ہے۔ اب ہمیں مذہب پر مبنی انتہا پسندی کے معاملے پر ایک نظر دوڑانی چاہیے۔ ہزارہ کے شیعوں کو ان کے عقائد کی وجہ سے کاٹ دیا گیا۔ کئی نفرت کے مبلغ کھلے عام قتل و غارت کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ احمدی لگا تار ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتے ہیں۔ اقلیت مخالف لوگ مذہب کی توہین کے واقعات کا فیصلہ عدالت میں ہونے دینے کے حامی نہیں ہیں۔ وہ گلیوں اور تھانوں کے اندر ہی ملزم کو قتل کر دینا چاہتے ہیں۔ اگر توہین مذہب کا کوئی ملزم بری بھی ہو جاے تو اسے بھی ملک میں کہیں رہنے کی جگہ نہیں ملتی۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ غیر مسلموں کو ان کی عبادت گاہوں میں اور مسلمانوں کو مساجد اور سکولوں میں مذہب کے نام پرقتل کر دیا جاتا ہے ۔ حتی کہ انتہا پسندوں کے تشدد کے شواہد کا ایک سرسری مطالعہ اس حقیقت کو سامنے لائے گا کہ شدت پسندی مذہب سے تعلق نہ رکھنے والے معاملات میں بھی بہت زیادہ شدت سے موجود ہے جیسا کہ مزدوروں کا استحصال، آوارہ بچوں پر تشدد اور ان کا استحصال، سکولوں اور مدرسوں میں بچوں پر جسمانی سزا کے ضمن میں ا نتہائی درجہ کا ٹارچر جیسے واقعات پاکستان میں آئے روز ہوتے ہیں۔

عورتوں کے خلاف تشدد کے اسباب میں پدرانہ معاشرہ، جاگیر دارانہ کلچر، خواتین کے خلاف نفرت آمیز رویہ کے علاوہ مذہبی تعلیمات کی غلط تشریح بھی شامل ہے۔ جہاں تک انتہا پسندوں اور باغیوں کے مذہب کے نام پر دہشت گردی کے بیانیے کا تعلق ہے ، ایک بین الاقوامی سطح پر شہرت رکھنے والے سکالر ،کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی کے سابق چیئرمین اور شریعت اپیلیٹ کورٹ کے موجودہ جج ڈاکٹر خالد مسعود کے مطابق مذہب کی غلط تشریح پر مبنی ہے۔ بدقسمتی سےشدت پسندی کی تمام شکلوں کی جڑیں ریاست کی کوتاہیوں اور غلطیوں سے جڑی ہیں۔ اگر پدرانہ نظام، خواتین سے نفرت اور جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے خواتین کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے تو اس کی ذمہ دار ریاست ہے جس نے پاکستان معاشرے کو ایسی اقداری الجھنوں سے پاک نہیں کیا جو جمہوری نظام اور کلچر کی مضبوطی کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ اگر سکول اور مدرسہ میں بچے ٹیچرز کے بھیس میں چھپے درندوں کے رحم و کرم پر ہیں اور اگر بڑے تعلیمی اداروں کے لوگ مشال خان جیسے طلبا اور خالد حمید جیسے استاد کو قتل کر سکتے ہیں تو کیا ریاست ان معاملات سے لا تعلق رہ کر قائم رہ سکتی ہے؟

مزدور، ان کے گھر کی خواتین اور بچے پریشانی کا شکار رہتے ہیں کیونکہ ان پر ظلم ڈھالنے والے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل میں پھنسے رہتے ہیں۔ کیا ریاست نے متعلقہ آئی ایل او کنوینشن سائن کرنے کے باوجود چائلڈ لیبر کے خاتمہ کے لیے کوئی ایکشن لیا؟ کیا ریاست نے جبری گمشدگیوں جو کہ شدت پسندی کی بدترین شکل ہے، کو نظر انداز کرنے کی روش ختم کی؟ جہاں تک مذہب کے نام پر شدت پسندی کا تعلق ہے، ریاست کو غفلت اور مجرمانہ کوتاہی دونوں لحاظ سے سخت سبکی کا سامنا رہا ہے۔ ایک طرف تو اس نے لوگوں کو اپنے عقائد کی صحیح ترجمانی سے واقف کرنے کے لیے کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا تو دوسری طرف یہ انہی مذہبی جماعتوں کے قریب ہے جو جمہوریت، انسانی حقوق اور پلورلزم کے سخت خلاف ہیں۔ پچھلی تمام حکومتوں نے مذہبی لابی کو خوش کرنے کے لیے لوگوں کو تقسیم کیا۔ اب وقت ہے کہ حالیہ حکومت خود سے پوچھے کہ اس نے پچھلی حکومتوں کےمقابلے میں مذہبی شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے کس حد تک کردار ادا کیا ہے کیونکہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے صدیوں سے اسلام اور مسلمانوں کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).