شاملو بیٹا میچ فکسڈ ہے


سندیپ مہیشوری اور قاسم علی شاہ کی موٹیوشنل وڑیوز دیکھنے کے بعد شاملو بلوچ ہمت، جرت و عزم کی تمثیل فقط ہمالیہ سے ہو سکتی تھی۔ شاملو اسی عزم عالی شان کو لے کر ہر روز دوڑ پہ دوڑ لگاتے، آخر کار دوڑ میں یوسین بولٹ و میلکا سنگھ بن گیا، جو نتیجہ تھا فقط ایک چاہ، ایک منزل کہ شاملو کو وردی پہن کر اپنے پیٹ کا فرض اور ماں کے دودھ کا قرض چکانا تھا۔ شاملو کا پہلا منزل یعنی دوڑ کا دن آگیا تو اقبال کا یہ شاہین میدان کار زار میں ہواؤں سے باتیں کرتے ہوئے محJ چند منٹوں میں منزل تک پہنچ گیا۔ اس بلند پروازی پر شاملو کے چہرے کا انبساط دیدنی تھا۔ مگر شاملو اس بات سے بھی آگاہ تھا کہ ہنوز دہلی دور است، تبھی شاملو نے دوسری منزل کی ٹرین پکڑ لی یعنی کتابوں پہ کتابیں رٹنے کا وراثتی پیشہ مگر یہ کارنامہ شاملو نے یوں انجام دیا کہ فرشتے گواہ ہیں کی عالم برزخ میں ارسطو و افلاطون ہش ہش کرتے رہے۔ تاریخ پاکستان، تاریخ ہند، تاریخِ اسلام سے لے کر تاریخِ عصرِ قدیم جیسی ضخیم کتابیں و علم، کیا تھا جو شاملو نے نہ رٹا ہو۔ آخر شاملو کو ٹیسٹ دے کر سب کو جو حیران کرنا تھا۔

اچھا تو قارئین کرام وہ دن بھی آ گیا جس دن شاملو کے دوست معشرِ صغریٰ کہتے تھے۔ حقیقتاً کچھ کچھ ادائے معشر تو تھی کہ کسی کو کسی کا خبر نہ تھا مگر شاملو کو جب پیپر ملا تو اس کو ٹیسٹ لینے والوں پہ ہنسی آئی اور چند ہی منٹوں میں شاملو پرچا حل کر کے آنے والے خوابوں میں گرفتار ہو گیا کہ جب شاملو باوردی ہو گا اس کا معاشرے میں عزت و رتبہ ہو گا۔ ماں، باپ، بہن بھائی اس پہ اپنے ضرورتوں کے عوض محبت ہی محبت نچھاور کریں گے۔ اور شاملو کے خوابوں کی رانی کو شاملو کیسے بھولتا؟ کہ جب وہ شاملو کو ڈیوٹی کے لئے نکلتے وقت کہتی میری شاملو جان بازار سے آنے کے وقت فلاں آئیس کریم لے آنا۔ شاملو آئیس کریم سے لے کر وائٹننگ کریموں تک کے ناموں کی لسٹ ذہن میں ترتیب دیے جا رہا تھا لیکن دفعتاً شاملو کو شیخ چلی یاد آ گئے اور ان کے انجام کا تو سب کو پتا ہے۔ تو اس نے جلد ہی کلپناؤں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے پھر سے جہد شروع کی، شاملو نام تھا عالی ہمتی کا۔ کیونکہ جب اس سے کہا گیا کہ شاملو میچ فکسڈ ہے تو بجائے بد دل ہونے کے شاملو نے ہنس کر بات ٹال دی اور کہا بیٹا میچ فیکسڈ ہوتا تو میچ ہی نہ کھیلتے اتنے دھوم دھڑکا، یہ چئیر لیڈرز خوامخواہ کون اتنے تکلیف کرے۔

اب شاملو انٹرویو کی تیاری کرنے کے لئے پھر سے صدیوں پہ محیط علم کے شاہ راہ کو ناپ رہا تھا۔ آخر وہ دن بھی آگیا جس دن شاملو کو انٹرویو دینا تھا۔ شاملو کچھ کچھ تذبذب میں مبتلا تھا کہ پتا نہیں کیا پوچھیں گے۔ کہیں تاریخ ترکی و اتا ترک نہ پوچھیں۔ حضرت علی کے گھوڑے کا نام پوچھے تو کیا کہوں گا۔

جلد ہی شاملو کو اندر بلایا گیا وہ اندر گیا تو صاحبان کرام کو دیکھتے ہی، نسخہ سندیپ مہیشوری پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے شاملو نے ایک خوبصورت مسکراہٹ سے سامنے بیٹھے سب کو دیکھا پھر ان کے اسرار پر ڈاکیومینٹس سامنے رکھ دیے ڈاکیومینٹس دیکھنے کے بعد پانچ سیکنڈ پہ مشتمل انٹرویو شروع ہوا۔ پہلا اور آخری سوال جو شاملو سے ہوا وہ تھا ”آپ کا نام کیا ہے“ نام بتانے کے بعد جب شاملو کو چلنے کا کہا گیا تو جیسے اس پہ مرگی کا دورہ پڑا تھا۔ پانچ مہینے کتابیں رٹنے کے بعد شاملو کو سوال یہ ہونا تھا؟

شاملو کو اپنا دوست یاد آیا جس کے بات کو شاملو نے مذاق سمجھ کر ٹال دی تھی۔ شاملو کے دوست کا کہنا تھا کہ اسے ایک انٹرویو میں کہا گیا کہ مبارک قاضی کا ایک شعر پڑھیں اب شاملو کے دوست کو شاعری سے وہی نفرت تھی جو مولانا فضل الرحمان کو عمران خان سے ہے۔ نتیجہ اسے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔

نکلتے وقت مایوسی اور نا امیدی کے گہرے سائے شاملو کو گیرے ہوئے تھے مگر شاملو کو اقبال کا شعر یاد آگیا

؎ نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے راز دانوں میں

اب اس کا امید نتیجے پر تھا۔ آخر جب وٹس ایپ پہ خبر پھیلی کہ نتائج آ چکے ہیں تو زندگی میں پہلی بار شاملو نے اتنی تیزی سے کچھ پڑھا ہو۔ ایک، دو اور تین دفعہ پڑھنے کے بعد شاملو کو لسٹ اجنبی اجنبی سی لگی۔ سارے نام ان لوگوں کے جنہوں نے کہا تھا شاملو بیٹا میچ فکسڈ ہے۔ میچ فکسڈ تھا اور شاملو کا سنچری رائیگاں جاچکی تھی۔ پانچ وقت خدا کو یاد کرنے، بابا فرید، قلندر، کو آواز دینے منتیں ماننے کے بعد بھی شاملو کا نام لسٹ میں شامل نہ ہو سکا۔ شاملو دل برداشتہ، مرے بھی اپنی جیب سے گئے اور جیئے بھی کیسے جیئے؟ اس دن شاملو سارا دن پھِرتا رہا مگر شاملو کے سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر شاملو جائے تو کدھر جائے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).