یوکرائن: ویل کم ٹو دی مسخرہ کلب


انڈیا، امریکہ اور پاکستان کے بعد یوکرائن بھی اسی خوش بخت کلب کا حصہ بن گیا جہاں مسخروں کا راج ہے۔ ولادیمیر زیلنسکی کا پاپولسٹ اینٹی کرپشن بیانیہ اسے آخر کار صدارتی محل تک لے ہی آیا۔ اتوار کے دن یوکرائن میں ”بھرپور“ ووٹنگ کے ذریعے ایک کامیڈین کو یوکرائن کا اگلا صدر منتخب کر لیا گیا۔ یوں مشکلات میں گھرا یہ ملک سیاست کے ایک نئے دور میں داخل ہوا ہے۔ کئی سالوں تک ایک مشہور کامیڈی شو میں یوکرائن کے صدر کا سوانگ بھرنے والے کامیڈین ولادیمیر زیلنسکی نے صدر پیٹرو پورو شینکو کو بالآخر شکست سے دوچار کیا جو 2014 سے حکومت میں چلا آ رہا تھا۔

الیکشن کے بعد زیلنسکی کو صدارتی دوڑ جیتنے کے لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اختتامی نتائج میں زیلنسکی نے شاندار تہتر فیصد ووٹ حاصل کیے۔ ایک عام آدمی کے عروج حاصل کرنے کی اس سکسیس سٹوری کو زیلنسکی نے ٹیلی ویژن پر بھر پور انداز میں پیش کیا۔ زیلنسکی سیاست کے میدان میں ایک نووارد ہے۔ سیاسی طور پر نا تجربہ کار زیلنسکی نے حکومت کے لیے کوئی تفصیلی بلیو پرنٹ بھی مہیا نہیں کیا۔

تاہم اپنی سیاسی مہم کے دوران اس کا پاپولسٹ اینٹی کرپشن بیانیہ حکومتی بد عنوانی اور اس کے نتیجے میں پائی جانے والی بے چینی اور غربت کے شکار لاکھوں لوگوں پر اثر انداز ہوا۔ زیلنسکی کا سلیبرٹی سٹیٹس بھی اس کی جیت میں ایک معاون قوت ثابت ہوا ہے۔ بڑا سوال اب یہ ہے کہ آیا وہ اپنے وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے یوکرائن کے طبقہ امراء کو قانون کے تابع لا کر اپنے ملک کو ایک معاشی قوت میں بدل پائے گا۔ ایک بات واضح ہے کہ مشکلات میں گھرے یوکرائنی زیلنسکی کو تبدیلی کا استعارہ قرار دیتے ہیں۔ کافی عرصے سے یوکرائن میں ایک نئے سیاسی چہرے کی خواہش کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ لوگ ایک ایسا شخص چاہتے تھے جس کا سیاسی مگر مچھوں کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔

کئی دہائیوں سے سیاسی لیڈر شپ کی ناکامی اور اس کے نتیجے میں پایا جانے والا عدم اطمینان زیلنسکی کی شاندار کامیابی کی بنیاد بنا۔ تقریبا تیس سال تک روس اور مغرب نواز معاشی اور سیاسی ڈائنوسارز کو صدور منتخب کرنے کے باوجود یوکرائن یورپ کا غریب ترین ملک رہا۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2013 کے بعد یوکرائن کی مجموعی معاشی پیداوار میں انتہائی تیز رفتاری سے کمی واقع ہوئی۔ اگرچہ بعد میں صورت حال کچھ بہتر ہوئی تاہم یوکرائن اگرچہ دنیا کا تو نہیں پر یورپ کا غریب ترین ملک پھر بھی رہا۔

معاشی مشکلات کی وجہ سے لاکھوں یوکرائنیوں کو روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک کا رخ کرنا پڑا۔ جب یوکرائن غربت کی طرف گامزن تھا، یوکرائن کے سابق صدر پیٹرو پورو شینکو کی دولت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ پیٹرو پورو شینکو جو کہ ماضی میں ایک انتہائی کامیاب کمپنی کا مالک بھی رہا جب 2014 میں اقتدار میں آیا تو کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ حکومت کے تعلقات معاشی مگرمچھوں سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔ فارن انویسٹمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے معاشی بحالی کے امکانات معدوم تر ہوتے چلے گئے۔

یوکرائن کے سابقہ وزیر خزانہ کے ایک بیان کے مطابق اگر یوکرائن اسی معاشی رفتار سے ترقی کرتا رہا تو اگلے 50 سال بعد وہ پولینڈ کے برابر معاشی قوت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ معاشی ترقی کے لئے آدھی صدی کا درکار وقت یقیناً لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے لیے کافی تھا۔ اگرچہ مشرقی اور جنوبی یوکرائن پر روس کے حملے کا کامیاب دفاع اور اس کا بیانیہ بہت سے لوگوں کے نزدیک پیٹرو پورو شینکو کو الیکشن کے دوران قوت مہیا کرتا رہا، تاہم آخری فیصلہ بہرحال معیشت کے میدان میں ہی ہوا۔

پیٹرو پورو شینکو ووٹرز کی ذہنیت کو سمجھنے میں ناکام رہا۔ اس نے اپنی الیکشن مہم کے بیانیے میں آرمی، دفاع، اسلحہ، زبان اور عقیدے کو بنیاد بنایا۔ تاہم ووٹرز ”نئے یوکرائن“ میں ”تبدیلی“ کے خواہاں تھے۔ وہ کرپشن کے خاتمے اور معاشی خوشحالی کے دور کا آغاز چاہتے تھے۔ پیٹرو پورو شینکو پرانے یوکرائن کا مضحکہ خیز نمائندہ تھا۔ اور اب ایک مسخرے کے دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ 41 سالہ زیلنسکی نے Netflix پہ نشر ہونے والے کامیڈی پروگرام Servant of the People سے شہرت حاصل کی۔

اس میں ایک سکول ٹیچر کے غیر متوقع طور پر صدر بن جانے اور نام نہاد کرپٹ اشرافیہ کے ساتھ اس کے تعلق کو دکھایا گیا ہے۔ زیلنسکی اب حقیقی زندگی میں بھی وہی کچھ کرنا چاہ رہا ہے جو اس نے اپنے پروگرام میں دکھایا۔ یہ سب شاید اتنا حیران کن نہ ہو کہ زیلنسکی جیسے ایک غیر روایتی امیدوار نے ایک غیر روایتی تحریک چلائی اور کامیابی حاصل کی۔ اس نے کچھ بڑی ریلیوں میں ضرور شرکت کی، تاھم پریس کا بہت کم سامنا کیا۔ اس کی بجائے اس نے ملک گیر دوروں میں مزاحیہ پرفارمنس دی اور لوگوں کو ہنسایا۔ تاہم اس نے ووٹرز سے رابطے کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا اور ان سے براہ راست مخاطب ہوا۔

Volodymyr Zelenskiy kisses his wife after the electoral victory

زیلنسکی کی خارجہ پالیسی زیادہ واضح نہیں۔ پورو شینکو کی طرح وہ بھی مغرب کا حامی ہے، یوکرائن کے لئے یورپین یونین اور نیٹو کی ممبرشپ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ زیلنسکی کے حوالے سے دو باتیں اب بھی یوکرائن کے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ جن میں سے ایک تو اس کی ناتجربہ کاری ہے۔ اگرچہ یوکرائن کے عوام اس مرحلے سے پہلے بھی ایک مرتبہ بے اعتنائی کے ساتھ گزر چکے ہیں جب 2014 میں انہوں نے باکسنگ کے ہیوی ویٹ چیمپیئن وتالی کو Kyiv کا میئر منتخب کیا۔ دوسری بات جو یوکرائن کے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے وہ زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ وہ زیلنسکی کی یوکرائن کے کرپٹ سرمایہ دار اگور کولوموئسکی سے انتہائی قربت ہے۔ زیلنسکی کا کامیڈی شو اگور کولوموئسکی کے ٹیلی ویژن چینل سے نشر ہوتا رہا۔

اگور کولوموئسکی کی سابق صدر پیٹرو پورو شینکو سے مخاصمت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کے خیال کے مطابق زیلنسکی محض اگور کولوموئسکی کی ایک کٹھ پتلی ہے جسے وہ طاقت کے حصول کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ تاہم یوکرائن کے عوام نے ان تمام تحفظات کے باوجود زیلنسکی کو منتخب کیا۔ اور اب یہ مسخرہ جو ملکی سیاست میں کرپشن کے خاتمے کا عزم لے کر داخل ہوا ملک کا اگلا صدر قرار پایا ہے۔ اگرچہ یہ ایک مذاق لگتا ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے۔ انڈیا، امریکا اور پاکستان پہلے ہی اس عمل سے گزر چکے ہیں۔ ان ممالک سے زیلنسکی کی کہانی کی مطابقت محض ایک اتفاق ہے۔ جس کے لئے ہم کسی کو ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے۔ ”تھری ایڈیٹس“ کے ممکنہ سیکول کا نام تجویز کرنا اب شاید قدرے آسان ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).