کیا آئی ایم ایف سے امداد ہمارے مسائل حل کر سکتی ہے؟


پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدوں کی تاریخ ساٹھ سال پر محیط ہے۔ 27 دسمبر 1945 ء کو آئی ایم ایف کی بنیاد رکھی گئی۔ آج اس کے ممبر ممالک کی تعداد 189 ہے۔ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ پہلا معاہدہ 1958 ء میں ہوا۔ اس وقت سے لے کر آج تک کل اکیس بار معاہدے ہوئے جن میں بارہ دفعہ سٹیں ڈ بائی ایڈجسمنٹ (ایس بی اے ) یا بیل آؤٹ پیکیج، پانچ دفعہ ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلٹی ( ای ایف ایف) ایک دفعہ سٹرکچرل ایڈجسمنٹ فیسلٹی (ایس اے ایف ) اور تین دفعہ ایکسٹینڈڈ کریڈٹ فیسلٹی کے معاہدے ہیں۔

ان تمام معاہدوں کے دوران تیرہ مرتبہ پاکستان کو وہ رقم مہیا نہیں کی گئی جس پر معاہدے کے دوران آئی ایم ایف اور پاکستانی وفد متفق ہوئے۔ آپ حیران ہوں گے کہ ان اکیس معاہدوں میں چودہ 1980 ء کے بعد کے ہیں جس سے اندازہ یہی لگتا ہے کہ اسّی کی دہائی تک ہم آئی ایم ایف پر اتنا انحصار نہیں کرتے تھے جتنا اس کے بعد ہم نے کیا۔ پاکستان نے بحرانوں میں آئی ایم ایف کے ساتھ پانچ دفعہ معاہدے ختم کیے جن میں ایک اسّی کی دہائی سے پہلے اور چار بعد کے ہیں۔ ان ٹرمینیٹڈ معاہدوں میں تین سٹینڈ بائی ایڈجسمنٹ کے معاہدے، ایک سٹرکچرل ایڈجسمنٹ فیسلٹی کا معاہدہ اور ایک ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلٹی کا معاہدہ ہے۔

آئی ایم ایف ممبر ممالک کی مدد تین طریقوں سے کرتا ہے۔ پہلا، یہ ادارہ معاشی نگرانی کرتا ہے جس کی رُو سے یہ اپنے ممبر ممالک کی معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کو مانیٹر کرتی ہے۔ دوسرا، یہ ممبر ممالک کو قرضے دیتی ہے جس کی وجہ سے یہ ممالک معاشی بحران سے نکلنے کی تگ و دو کرتی ہیں۔ تیسرا، یہ ممبر ممالک کی معاشی پالیسیوں اور اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرکے وہاں کے لوگوں کو ٹرینگ بھی مہیا کرتی ہے۔

آئی ایم ایف کی کرنسی کو ایس ڈی آر یعنی کہ سپیشل ڈرائینگ رائٹ کہتے ہیں۔ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ اس کرنسی کی بنیاد دنیا کے پانچ ممالک کی کرنسیوں پر ہے یعنی کہ یہ کرنسی ان ممالک کی کرنسیوں میں بدلی جاسکتی ہے۔ ان ممالک میں جاپان کی کرنسی یَن، امریکہ کا ڈالر، یورو، چائنا کی کرنسی اور پاؤنڈ شامل ہے۔

ہم ایک ایس ڈی آر کو اگر امریکی ڈالر میں بدلنا چاہیں تو اس کی ویلیو ایک اعشاریہ تین نو آئے گی۔ پاکستانی کرنسی میں ایک ایس ڈی آر کی ویلیو 197.11 روپے بنتی ہے۔ ہم اگر اس ساٹھ سالہ تعلق کا ذکر کریں تو ہم حیران رہ جائیں گے کہ پاکستان نے آج تک ان ساٹھ سالوں میں آئی ایم ایف سے تیرہ ملین سات سو پچانوے ہزار پینتالیس ملین ایس ڈی آر ( 13، 795، 045 ) مالی مدد لی ہے اگرچہ پاکستان اور آئی ایم ایف انیس ملین تین سو اٹھاسی ہزار چھ سو پچاس ملین ( 19، 388، 650 ) ایس ڈی آر پر متفق ہوئے۔ ہم اگر حاصل شدہ امداد کو امریکی ڈالر میں تبدیل کرنا چاہیں تو اس کی ویلیو انیس ملین ایک سو پچھتر ہزار ایک سو بارہ ملین ڈالر بنتی ہے۔ اس کا مطلب ہے پاکستان کے معاشی افلاطونوں نے آج تک انیس ملین ایک سو پچھتر ہزار ایک سو بارہ ملین امریکی ڈالر کا قرضہ لیا۔

ان ویلیوز کو پاکستانی کرنسی میں اگر تبدیل کیا جائے تو ہر ذی شعور حیران ہوجائے گا کہ اتنی بڑی رقم اگر ہمارے ملک میں آئی ہے تو کیا وہ وہاں خرچ بھی ہوئی ہے جہاں ضرورت تھی۔

آپ بھی میری طرح ان ویلیوز کو دیکھ کر خود سے یہی پوچھیں گے کہ آج ہم دوبارہ کیوں آئی ایم ایف جارہے ہیں۔

پاکستان نے آئی ایم ایف سے بارہ دفعہ سٹینڈ بائی ایڈجسمنٹ (ایس بی اے ) معاہدہ کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ انتہائی بحران میں جب دیوالیہ ہونے کا خطرہ لاحق ہو ایسے معاہدے کیے جاتے ہیں۔ اس معاہدے میں قرضہ عام طور پر بارہ سے اٹھارہ مہینے میں دیا جاتا ہے اور جس کی واپس ادائیگی کی میعاد تین سے پانچ سال ہے۔ اس کا مطلب ہے ہماری ایک حکومت جب یہ معاہدہ کرتی ہے تو اپنا جمہوری وقت پورا کرنے کے بعد اس قرضے کی ادائیگی اپنے بعد والے حکومت پر ڈال دیتی ہے جو صرف اس کے سود کی واپسی پر اکتفا کرلیتی ہے۔ مذکورہ منظرنامے کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ہم قرضوں کی ادائیگی نہیں کررہے بلکہ سود کی ادائیگی کے لئے مذید قرضے لے رہے ہیں۔ ہم کتنے عجیب لوگ ہیں کہ ہم نے بارہ دفعہ اس معاہدے کو قبول کیا۔

قرضوں میں کئی نسلیں راہی عالم بقاء ہوئیں لیکن بحرانوں کے آگے بندھ نہیں باندھا گیا۔ قرضے اگر بحرانوں کو حل کرسکتیں تو آج ایک بار پھر کیوں ہم آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہوتے۔ اس سوال کا جواب شاید ہر کسی کے پاس ہو لیکن دینے والا پھر بھی اس پر تحقیق نہیں کرے گا۔

ہم سب خوش ہوجائیں گے جب قرضہ مل جائے گا اور خوش اس لئے ہوں گے کہ ہمارے ماہرین ہمیں بھوک سے ڈرا جو رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ قرضے عوام کے نام پر لے کر حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہورہے ہوں۔

ہمارے ملک کا بنیادی المیہ بھی یہی ہے کہ ہم لاگت تجزیہ فوائد جس کو انگریزی میں کاسٹ بینیفٹ اینالیسز کہتے ہیں بالکل نہیں کرتے۔ ہمارے وہ لوگ جو تھوڑی بہت معیشت کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں وہ بھی امداد ہی کو اس ملک کے بحرانوں کا حل سمجھتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف جب بر سر اقتدار نہیں آئی تھی تو عوامی فورمز پر ببانگ دہل ان معاہدوں کو بھیک کا نام دیتی تھی لیکن عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ لوگ بھی پوری دنیا گھومے اور فارن ایکسچینج ریزوز بڑھانے میں مصروف تھے اور بغیر کوئی اندازہ لگائے آئی ایم ایف کا ٹھکرا رہے تھے لیکن آج ہمارے وزیر خزانہ اسی در پر موجود ہیں۔

ہم ان معاہدوں سے کیسے نکل سکتے ہیں جب ہمارے حکمرانوں پر کرپشن کے چارجز ہیں جن کا وہ اور ان کے سیاسی ورکرز بھرپور دفاع کر ہے ہیں۔

ہماری تاریخ میں قرضوں کی بجائے کبھی بھی حکومتوں نے تجارت اور کاروبار پر فوکس نہیں دیا۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں اور ایسے میں انتخابات کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔ سب سے بڑا جو ہمارا اندرونی مسئلہ ہے مسلسل کرپشن کا ہے جس نے سات عشرے ہماری بنیادیں تک ہلادی ہیں لیکن آج تک منتخب حکومتوں، عدالتوں اور پالیسی ساز اداروں نے اس پر سنجیدہ غور نہیں کیا۔ ہم قرضے مسلسل لے رہے ہیں لیکن کسی حکمران نے آج تک اپنی لائف سٹائل بدلنے کی کوشش نہیں کی۔

ہم اگر چاروں صوبوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران کا ماہانہ خرچہ اور ایکسپینس ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں تو ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے۔ یہ نازک مزاج لوگ زندگی میں کوئی تبدیلی لانے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور یہی وجہ ہے کہ سارا بوجھ عوام ہی پر پڑتا ہے۔ ہمارے ایک تہائی درآمدات کا تعلق تیل سے ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں جب تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو ہم درآمدات ڈالرز میں خریدتے ہیں جس کی وجہ سے فارن ایکسچینج ریزوز کی قلت بڑھ جاتی ہے۔ یہ مسئلہ قابو میں آسکتا اگر ہمارے برآمدات زیادہ ہوتے لیکن وہ بھی ضرورت سے کم ہیں جن کی وجہ سے ہر طرف خسارہ ہی ہے۔

ہم جب تک خود کو اجتماعی طور ہر نہیں بدلیں گے ہم ایسے ہی در بہ در بھیک مانگتے رہیں گے۔ آج بھی ہمیں اگر آئی ایم ایف سے بھیک مل جاتی ہے تو ہم اجتماعی مبارکبادوں کا سلسلہ شروع کردیں گے۔ وزیر خزانہ کو تبدیل کیا گیا ہے اور پرانے نظام جس کی بنیاد سود پر ہے کو سُود کے نئے کپڑے پہنانئے جارہے ہیں لیکن ہمارا کیا ہے ہم نے تو مبارکباد دینی ہے ہمارے حکمرانوں کو پیسے جو مل جاتے ہیں۔ میری طرح آپ کو بھی مبارک ہو کیونکہ بھوک سے ہلاک ہونے کا خدشہ دور ہوجائے گا جب ہمیں قرض مل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).