سائیکل پر ڈاک پہنچانے والا ڈاکیا اور سرکاری ڈاک خانہ


محکمہ ڈاک سے میرے کچھ پرانے اور سہانے مراسم ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی ڈاکیا ڈاک لے کر ہمارے پولیس ٹریننگ کالج آتا تو اسے میلی کچیلی وردی میں ملبوس اور پرانی سی سائیکل پہ سوار دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوتا۔ مجھے اپنے محلے کی دکان پہ روزانہ علی الصبح رس بسکٹ اوربیکری کا دیگر سامان سپلائی کرنے والا چاچا منظور یاد آ جاتا جو گرمی سردی کے موسم میں ہر صورت ہمارے محلے کی دکان پر مال سپلائی کرنے آیا کرتا تھا۔

چاچے منظور کی سائیکل شاید اس کی ہڈیوں کے ساتھ رچ بس گئی تھی ہوسکتا ہے یہی وجہ ہو جو میں نے ہمیشہ چاچے منظور کی سائیکل کو اسی طر ح گنٹھیا کے مرض میں مبتلا کسی بوڑھے کی ہائے ہائے جیسی آوازیں نکالتے اور چوں چوں کرتے ہی دیکھا اس کی سائیکل کی چین کسی برسوں پرانے کھنڈر نما گھر میں نصب دروازے کے کھلنے پر زنگ آلود قبضے سے نکلنے والی آواز جیسی آوازیں نکالتی۔ اکثرچاچے منظور کے ہاتھ پاؤں چین چڑھانے سے سیاہ ہوتے کیوں کہ یا تو اس کے سائیکل کی چین ٹوٹ جایا کرتی تھی یا بار بار اتر جایا کرتی مگر مجال ہے کہ چاچا منظور ایک روپیہ بھی سائیکل پہ خرچ کرتا ہو بلکہ چاچا منظور تو سائیکل کو پنکچر بھی خود ہی لگا لیا کرتاتھا۔

ایک دن ازراہ ہمدردی میں نے چاچے منظور سے پوچھا چاچا آپ روزانہ کتنے روپے کما لیتے ہو۔ میرے خیال میں تھا کہ لازمی چاچے منظور کے پاس سائیکل ٹھیک کروانے کے لیے پیسے نہیں ہوتے ہوں گے۔ میری طرف طنزیہ دیکھ کر کہنے لگے پتر تیرے پڑھنے کے دن ہیں، پڑھائی پہ دھیان دو۔ ابھی سے کمائی ومائی کے چکر میں مت الجھو۔ میں نے پھر اصرار کیا پھر بھی چاچا بتائیں تو۔ میرے اصرار کرنے پہ چاچا نے فخریہ انداز سے کہا پتر جس دن میری دیہاڑی ماٹھی ہو اس دن تین ساڑھے تین سو ورنہ چار پانچ سو کہیں نہیں گیا۔

یہ ان وقتوں کی بات ہے جب ایک نئے بھرتی ہونے والے پولیس کانسٹیبل کی تنخواہ بیالیس سو روپے ہوا کرتی تھی خیر۔ شدید گرمیوں کے دن تھے جب میں پولیس کالج کے گیٹ سے متصل اپنے دفترمیں بیٹھا کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھ رہا تھا حسب معمول ڈاکیا سرکاری خطوط پارسلز سے بھرے تھیلے اپنی سائیکل کے ڈنڈے ہینڈل اور کیرئیرپہ لادھ کر ہانپتا ہوا پسینے سے شرابور گیٹ سے اندر داخل ہوا سائیکل کے پیڈل گھماتے وقت ڈاکیا جس طرف کا پیڈل گھمانا ہوتا اسی طرف جھک جاتا جس سے صاف صاف محسوس کیا جا سکتا تھا کہ اس کی سائیکل کا بھی کبھی کوئی کام وام نہیں کروایا گیا یقینا اس ڈاکیے نے بھی چاچے منظور کی طرح سائیکل کی مرہم پٹی کا ضروری سامان گھر میں ہی رکھا ہوا ہوگا۔

ڈاکئیے کی سائیکل کے ٹائر گھس کراپنی اصلی حالت کھو چکے تھے۔ ٹائروں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید یہ ٹائر سائیکل کے وجود میں آنے سے کئی سال پہلے معرض وجود میں آگئے ہوں گے۔ یقینایہ ٹائر کسی شوقین اور فضول خرچ سائیکل سوار نے اپنی سائیکل سے اتار کر پھینکے ہوں گے جنھیں اس موصوف نے اپنی سائیکل میں جڑ لیا ہوگا۔ خیر وہ ڈاکیا تو گزر گیا مگر میری روح کوجانے کیوں بے چین کر گیا۔ میں نے سوچا کہ جتنے پرائیویٹ ڈاک ترسیل کرنے والے ادارے ہیں ان کے ایجنٹ خوبصورت وردیوں میں ملبوس گاڑیوں موٹرسائیکلوں پہ ڈاک اور پارسل پہنچانے آتے ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ محکمہ ڈاک کے ڈاکیے آج بھی پرانی گھسی پٹی سائیکلوں کے پیڈل مارتے آتے اور خجل خوار ہوتے ہیں۔ میں نے گوگل سے کسی خوبصور ت سے ڈاک خانے کی تصویر لی اورساتھ محکمہ ڈاک کے آفسیر ز کو مخاطب کر کے فیس بک پہ ایک پوسٹ چڑھا دی۔ جس میں لکھا کہ صاحب جی اس ترقی یافتہ دور میں بھی ڈاک ترسیل کرنے والے ڈاکیے سائیکل پہ ہی کیوں آتے ہیں۔ اس پوسٹ پر کافی لوگوں نے طرح طرح کے کمنٹس کیے۔ لیکن ایک کمنٹ بڑا معنی خیز تھا۔

صاحب کمنٹ نے لکھا باباجی یہ ڈاکیے اگر اس طرح سائیکلوں پہ مارے مارے پھر رہے ہیں تو قصور ہمارا ہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے پارسل خطوط محکمانہ خط وکتابت رجسٹریاں منی آرڈر محکمہ ڈاک کے ذریعے ہی بھیجیں اور وصول کریں اپنا ہر لین دین بجلی گیس ٹیلی فون کے بل بھی ڈاک خانے جا کر جمع کروائیں تاکہ محکمہ ڈاک کے ریونیومیں اضافہ ہوڈاکیوں کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافے ہوں اور یہ لوگ بھی پرانی سائیکلوں سے اتر کرکم از کم موٹر سائیکلوں پہ ضرور آجائیں۔

یہ تجویز میرے دل کو لگی میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد پہلے کی طرح میں محکمہ ڈاک کی خدمات لیا کروں گا۔ پہلے کی طرح اس لیے کہا کیوں کہ ایک وقت تھا جب ہر دو دن بعد مجھے محکمہ ڈاک سے ایک پارسل وصول ہوا کرتا تھا۔ اور وقتاً فوقتاً میری طرف سے بھی کوئی نہ کوئی پارسل محکمہ ڈاک کے حوالے کیا جاتاتھا بہرحال اس ڈاک ترسیل کی روداد پوری ایمانداری اور تفصیل کے ساتھ میرے زیر تکمیل ناول کمانڈو کی ڈائری درج کی جارہی ہے۔

آج مجھے ایک ضروری لیٹر کسی جگہ بھیجنا تھا اور فیس بک والا وہ کمنٹ بھی میرے ذہن میں تھا۔ بے شک ٹی سی ایس کا دفتر مجھے زیادہ نزدیک پڑتا تھا لیکن میں آج ڈاک خانے ہی جانا چاہتا تھا۔ ڈاک خانہ دیکھے ٹھکا ٹھک لگتی مہروں کی آوازیں سنے بھی کافی عرصہ بیت گیا تھا سوچا کچھ یادیں بھی تازہ کی جائیں اور اپنا لیٹر پوسٹ آفس والوں کے سپر د کرکے کچھ سرکاری خزانے میں بھی حصہ ڈالا جائے۔ تقریباً آٹھ بج کر لگ بھگ چالیس منٹ کا وقت تھا جب میں ہاتھ میں وہ لیٹر لیے لاہور کے ایک دیہاتی ڈاک خانے پہنچا۔

خاکی ڈریس پنٹ اور سیاہ شرٹ کے اوپر سرخ ٹائی لگائے پاؤں میں سفید چیتا کلب جوگر پہنے کرائے کی چھوٹی سی دکان کے باہرمحکمہ ڈاک کا ایک اہل کارکھڑا تھا۔ اس اہل کار کے باہر کھڑے ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ابھی تک صفائی کرنے والی اماں نہیں آئی تھی۔ اماں اس لیے کہا کیوں کہ میرے کھڑے کھڑے ہی ایک ادھیڑ عمر اماں ہاتھ میں دستی والا جھاڑو پکڑے وارد ہوگئی۔ عادت سے مجبور میں نے اس رنگ برنگے ڈاک بابو سے اماں کے بارے دریافت کیا تو پتہ چلا اماں پرائیویٹ صفائی ایجنٹ ہیں اور اپنی مرضی سے کبھی کبھی تو نو بجے کے بعد تشریف لاتی ہیں اسی اثناء میں چند مزید ڈاک بابو بھی تشریف لے آئے۔

ڈاک خانے کا عملہ آنے سے پہلے ہاتھوں میں مختلف کاغذات بجلی کے بل پکڑے لوگوں کی ایک لمبی قطار لگ چکی تھی۔ رش دیکھ کر مجھے لگا وہ کمنٹ غلط نہیں تو ٹھیک بھی نہیں تھا۔ یہاں تو پوری بستی ہی ڈاک خانے امنڈ آئی تھی۔ نادرہ آفس یا ہسپتالوں میں پرچی لینے والوں کی قطار جتنی لمبی قطار تو نہیں تھی بہرحال کافی رش تھا۔ ایک خستہ حال دکان کرائے پر لے کر پوسٹ آفس بنا دیا گیا تھا شاید بجلی بھی ساتھ والی دکان سے منت کر کے لی گئی تھی۔

بجلی کا ذکر اس لیے کیا کیوں کہ پوسٹ آفس آنے والے ہر بندے کو لفافہ لینے کے لیے ساتھ والی دکان میں ہی ریفر کیا جا رہا تھا جہاں دو روپے کا لفافہ دس روپے کے آسان نرخوں پر دستیاب تھا۔ کرائے کی دکان کے شٹر کے اوپری حصے پر سرخ سیاہی سے لکھا تھا پوسٹ آفس۔ کرائے پر لی گئی مرغیوں کے ڈربے جتنی اس دکان کے اندر شیشے کے کیبن کی دوسری جانب لکڑی کی بڑی بڑی مہریں پڑیں تھیں۔ پھٹی پرانی فائیلیں ٹوٹی پھوٹی کرسیاں چھت پہ لگے مکڑیوں کے جالے اورکھانستی ہوئی صفائی والی اماں یہ بھیانک منظر اس جدید دور میں محکمہ ڈاک کے تمام حالات کی داستان بیان کر رہا۔ اب مجھے محض ٹوٹ پھوٹ کا شکار سائیکل پہ ڈاک دینے پولیس ٹریننگ کالج آنے والے ڈاکیے کی ہی نہیں بلکہ اس پوسٹ آفس کے ماحول کی بھی روداد لکھنی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).