ڈاکٹر حفیظ شیخ: معیشت کی بحالی کے لئے ضروری اقدامات


لرزتی ہوئی معیشت سے تو اب سب پاکستانی متعارف ہیں۔ اسے سنبھالا دینے کے لئے پی۔ ٹی۔ آئی نے اپنے انتہائی قریبی ساتھی کی بھی قربانی دے دی۔ نئے آنے والے مشیر معیشت کے حق میں یہ بات توجاتی ہے کہ وہ عالمی سطح پر اور ملک کے اندر کافی متعارف ہیں۔ 20 سال عالمی بنک میں خدمات سرانجام دینے کے بعد وہ مشرف دور میں پہلی دفعہ صوبہ سندھ میں بطور وزیرنظر آئے تھے۔ اسی دور میں انہیں مرکز میں لاکر نجکاری اور سرمایہ کاری کا شعبہ سپرد کیاگیا۔

دونوں شعبوں میں ان کی کارکردگی کافی اچھی رہی تھی۔ انہوں نے خسارہ میں چلنے والے چھوٹے بڑے 34۔ ادارے پرائیویٹ شعبہ کے سپرد کردیئے تھے۔ یہ بات بھی ان کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہواتھا۔ بطور وزیر خزانہ پیپلز پارٹی ان کی کارکردگی بہت بہتر نہ تھی۔ شوکت ترین اور حفیظ شیخ کے زمانے میں زرداری کی لوٹ مار بھی بڑے پیمانے پرجاری رہی۔ اگرچہ ہم انہیں بلاواسطہ اس گھناؤنے کام کا ذمہ دار نہیں گردان سکتے۔

اب بھی حفیظ صاحب نے مشکل حالات میں ذمہ داری سنبھالی ہے۔ میں ان کے لئے چند شعبوں کی نشان دہی کرونگا۔ جن کی طرف انہیں توجہ دینی انتہائی ضروری ہے۔ نجکاری کاکام جہاں وہ چھوڑ کرگئے تھے۔ وہیں کھڑا ہے۔ زرداری اور نواز شریف کے زمانے میں یہ آگے نہیں بڑھا۔ اب بھی خسارہ میں چلنے والے چھوٹے بڑے 197 کے قریب ادارے ہیں۔ ان کے خسارے ہرماہ اور ہرسال بڑھتے جارہے ہیں۔ کبھی یہ مقدار 1,6 ٹریلین روپے سالانہ بتائی جاتی تھی جو جی۔ڈی۔ پی کا 4 فیصد بنتا ہے۔ اب یہ نقصان کی رقم اوربڑھ چکی ہوگی۔ ان تمام چھوٹے بڑے کاروباری اداروں کو وزیر نجکاری کے ساتھ مل کر پرائیویٹ شعبے کے سپرد کرنا ہی مسٔلہ کا حل ہے۔ اس کام کو تیزی سے اور شفاف انداز سے سرانجام دے کر سرکاری خزانے کو ایک بہت بڑے بوجھ سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ یہ بوجھ 70ء کی دہائی سے معیشت برداشت کرتی چلی آرہی ہے۔ دنیابھر میں کہیں بھی سرکاری کاروباری ادارے پبلک سیکٹر میں نہیں چل رہے۔

صرف مواصلات کے اداروں کو چلانا کسی حد تک حکومت کی ذمہ داری میں آتا ہے۔ صدیوں پرانے دانشور بھی حکومتی فرائض کو دفاع، ملکی امن وامان، انصاف کی موثر فراہمی اور امورخارجہ تک محدود کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ موجودہ زمانے میں تعلیم اور صحت کو بھی حکومتی فرائض میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ کام توحفیظ شیخ کو میاں سومرو وزیر نجکاری سے ملک ر فوری طور پر شروع کروانا چاہیے۔ کوئی تُک نہیں بنتا کہ پاکستان سٹیل اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا خسارہ حکومت پاکستان برداشت کرے۔

سابقہ چیف جسٹس افتخار چودھری نے پاکستان سٹیل کی نجکاری رکوا کر معیشت پر ظلم کیا تھا۔ نجکاری کمیشن کو طاقتور اور موثر بنایاجائے۔ عدالتیں اس راستے میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ کل ہی عدالتوں کی طرف سے ایک اچھا فیصلہ آیا ہے۔ موبائل فونز پر سے لگائے گئے ٹیکس کو معطل کرنے کافیصلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی 90۔ ارب کی وصولیاں بحال ہوگئی ہیں۔ عدالت ٹیکسوں کے معاملات میں کسی قسم کا بھی اختیار نہیں رکھتی۔ حفیظ شیخ کے پاس تقریباً سوا چار سال کا عرصہ ہے۔

اگر وہ اپنے ساتھیوں سے ملکر یہ کام کرگئے تومعیشت گھٹنوں گھٹنوں خسارے سے نکل آئے گی۔ پیپلز پارٹی اس راستے میں ضرور رکاوٹ بنے گی۔ لیکن اس مسٔلہ میں پاکستان مسلم لیگ اور دوسری چھوٹی پارٹیاں حکومت کے ساتھ کھڑی ہوں گی ۔ یہ کرنے کا پہلا ضروری کام ہے۔ بجلی خسارہ جو اب 1600۔ ارب تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا حل نکالنا بھی ضروری ہے۔ چھوٹے صوبوں میں بجلی کا بل ادا نہ کرنا کلچر بن چکا ہے۔ کہیں کہیں پنجاب میں بھی یہ کام ہورہا ہے۔

بجلی کے شعبہ کے خسارے کی دوسری وجہ Line Lossesہیں۔ پورے ملک میں واپڈا اورKSAکا انفراسٹرکچر بدلنا بہت بڑی مالیات کا تقاضا کرتاہے۔ لیکن بجلی کی چوری کا مسٔلہ تو حل کیاجاسکتا ہے۔ واپڈا کو دوسرے ممالک کی طرح یہاں بھی Pre۔ paidمیٹر سسٹم کا انتظام کرناچاہیے۔ آخر پاکستانی اپنے موبائل کوچالو رکھنے کے لئے بھی پہلے ہی بیلنس خریدتے ہیں۔ یہاں بھی ہر صارف بجلی کے میٹر میں بیلنس ڈالے۔ یہ کام بلاواسطہ تو حفیظ شیخ کی وزارت کے تحت نہیں آتا۔

لیکن انہیں چاہیے کہ وزارت بجلی کو اس مسٔلہ کے حل کے لئے ترغیب دیں۔ بجلی کے بلوں کو بدلنے کا سنتے تو ہم کئی سالوں سے آ رہے ہیں لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ بجلی کے میٹرکی تبدیلی کے لئے اگر اسمبلی سے بھی مدد لینی پڑے تو وہاں جانے سے بھی کترانا نہیں چاہیے۔ ہرکوئی جانتا ہے کہ بجلی پیدا کرنے پر اخراجات آتے ہیں۔ بجلی صرف اس کو ملے جو اس کا معاوضہ پیشگی اداکرے۔ یہ کام ہونا بھی معیشت کو ایک بڑے گرداب سے نکالنا ہے۔

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ Loss میں جانے والے تمام اداروں کو نجی شعبہ کے حوالے کیاجائے۔ یہاں واپڈا کے تحت بھی جتنی بھی تقسیم کار کمپنیاں ہیں۔ انہیں موثر اور شفاف انداز سے پرائیویٹ شعبہ کے سپرد کیاجائے۔ بجلی کا Loss روکنے کے لئے درجہ بالا دونوں کاموں کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔ حکومت اپنے کاروباری اداروں سے جتنی جلدی جان چھڑائے گی اتنا ہی جلد خسارہ ختم ہوتاجائے گا۔ ایسا ہی کامP۔ S۔ O میں ہونا ضروری ہے۔ پٹرول ہماری ضرورت ہے۔

لیکن یہ کام پرائیویٹ کمپنیاں سرانجام دیں۔ جیسے باقی اشیاء بے شمار لوگ اور کمپنیاں درآمد کرتے ہیں اور عوام کو فروخت کرتے ہیں۔ تیل بھی ایک شے ہے۔ Loss سے جان چھڑانے کے لئے اس کی نجکاری بھی ضروری ہے۔ اسی شعبہ کے ساتھ ساتھ اب گیس بھی باہر سے منگوائی جا رہی ہے۔ گیس کو قطر سے منگوانے کا انتظام سابقہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اچھے انداز سے مکمل کرچکے ہیں۔ اب اگر ملکی یا درآمدی گیس میں مسائل آرہے ہیں تو اس میں نجی شعبہ کے سپرد ذمہ داری ڈالنا ضروری ہے۔

آخر ہر کاروبار حکومت ہی کیوں کرے۔ یہ بات تو بڑی مشہور ہے کہ پرائیویٹ شعبہ کاروبار کے لئے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ہے۔ آخر پاکستان اس سونے کے انڈے سے کیوں فائدہ نہ اٹھائے۔ حفیظ شیخ کے لئے دوسرا اہم کام درآمدی بل کو کم کرنا ہے۔ درآمدات بڑھتے بڑھتے 57۔ ارب ڈالرسالانہ تک پہنچ گئی ہیں۔ کچھ لازمی اشیاء کی درآمدات ہمارے جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے ضروری ہیں۔ مشینری اور صنعتی خام کی درآمد کے بغیر ہماری معیشت نہیں چل سکتی۔

لیکن جناب حفیظ شیخ صاحب اگر آپ درآمدی لسٹ پر نگاہ ڈالیں گے تومعلوم ہوگا کہ بہت سی غیر ضروری اور لگثری اشیا درآمدی لسٹ میں شامل ہیں۔ آنے والے بجٹ میں درآمدات پر ایک بڑا کٹ لگنا ضروری ہے۔ تاکہ تجارتی خسارہ کے مکمل کھلے ہوئے منہ کو کافی حد تک بند کیا جائے۔ پاکستان کی سٹرکوں پر دوڑتی ہوئی قیمتی اور بڑی بڑی گاڑیوں کی یہاں کیا ضرورت ہے۔ درآمدہ گاڑیوں پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ آخر ہمارے اپنے ملک میں گاڑیاں اسمبل کرنے کے کافی کارخانے ہیں۔

پہلے صرف جاپانی کارخانے تھے اب چین بھی آ گیا ہے۔ تیار شدہ گاڑیاں درآمد کرنے پر مکمل پابندی لگنا ضروری ہے۔ ایسی گاڑیاں سمگلنگ کے ذریعے بھی براسطہ چمن بارڈر آتی ہیں۔ نئے بجٹ میں گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی لگنا ضروری ہے۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ اس تجویز میں ضروری ٹرکوں اور بسوں کی درآمد پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ اسی طرح سے فوڈ گروپ کی طرف بھی توجہ کی جائے۔ ایک سال پہلے اس گروپ کی درآمدات کی مالیت 5.72 بلین روپے تھی۔

جس ملک میں اپنے ہاں دودھ وافر مقدار میں دستیاب ہو۔ وہاں بند ڈبوں کے ذریعے دودھ پر کروڑوں صرف کرنے کوعیاشی ہی کہاجائے گا۔ ایک سال پہلے 252 ملین روپے کا دودھ منگوایا ہے۔ فوڈ گروپ کا تجزیہ کرنے سے اور بھی کئی غیر ضروری اور لگثری اشیاء کو درآمدی لسٹ سے نکالا جاسکتا ہے۔ درآمدات میں تیار کپڑے اور میک اپ کا سامان بھی بڑی مقدار میں شامل ہے۔ اس پر بھی Ban لگنا ضروری ہے۔ دوسرے درآمدی گروپس پر بھی نظر ڈال کر غیر ضروری اشیاء کو نکالا جاسکتا ہے۔

صرف وہ چیزیں آئیں جو ہمارے ملک کی معیشت کو آگے بڑھانے کے لئے ضروری ہیں۔ ہماراسب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہمارا ہمسایہ چین ہے۔ لیکن چین صرف یک طرفہ حصہ دار ہے۔ وہاں کی بے شمار اشیاء ہماری مارکیٹوں میں پڑی نظر آجاتی ہیں۔ چین سے آنے والی مشینری اور صنعتی خام مال کے علاوہ باقی ماندہ اشیاء کی درآمد کو روکنا اب ضروری ہوگیا ہے۔ چین کی بڑے پیمانے پر اشیاء آنے سے کئی ملکی صنعتیں بند ہوگئی ہیں۔ چین کے ساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ 2009 ء میں ہوا تھا۔ اب اس پر نظرثانی ہونا ضروری ہے۔ ہماری برآمدات تو جلدی بڑھنے سے رہیں لیکن غیرضروری اور لگثری اشیاء کی درآمدات کو کٹ کر کے یا پابندی لگا کے اس بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو روکا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ان کی ٹیم کے لئے یہ کرنے کے ضروری کام ہیں۔ پوری قوم کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).