سائبر کرائم بل اور دھوکے باز لڑکیاں
اب جبکہ سائبر کرائم بل کو سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی منظور کر لیا ہے اور جناب عزت ماب ہز ایکسیلینسی ممنون حسین صاحب کے قلمی دستخط کے بعد باقاعدہ رسمی قانون میں ڈھل جائے گا، تو یہ مناسب ہے کہ ہم بھولی بھالی قوم کو اس کے خطرات سے آگاہ کر دیں۔ بقیہ ماہرین تو اس کے غیر عملی قسم کے تھیوریٹکل پہلووں پر بحث کر کے آپ کا وقت ضائع کریں گے، لیکن ہم ان معاملات سے آپ کو آگاہ کرنے لگے ہیں جو کہ آپ کو روزمرہ زندگی میں اندر کرا سکتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہاں سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے والے خواتین و حضرات کسی قسم بنیادی ڈھانچے سے (بشمول آئین کے بنیادی ڈھانچے کے) چھیڑ چھاڑ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ نہ ہی وہ خفیہ اعداد و شمار کو ادھر ادھر کرنے کے مجرم قرار پائیں گے کیونکہ عام طور پر سوشل میڈیا پر ہر شخص اپنے ذاتی استعمال کے لیے اعداد و شمار خود ہی گھڑ کر پیش کرتا ہے۔
ہاں کچھ شقوں سے یہ اندازہ ضرور ہو رہا ہے کہ مذہبی، ملحد، لسانی، معاشی، لبرل، کمیونسٹ، نظریاتی اور دیگر اقسام کے انتہاپسند جہادیوں کو سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کافر کافر پکارنے والے چودہ سال کے لیے اندر ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح یہود و ہنود اور قادیانی سازش وغیرہ کا ذکر کرنے پر بھی مذہبی منافرت پھیلانے والی شق کے تحت چودہ برس کی لمبی قید ہو گی۔ اس کے علاوہ پانچ کروڑ تک جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ یعنی اب آپ دہشت گردی کے واقعے میں را کے ملوث ہونے کا شبہ تو ظاہر کر سکتے ہیں، مگر یہ مت کہیں کہ یہ را کے ہندو ایجنٹ کی کارستانی ہے۔ مزید براں سیکولرازم کو دہریت کہنا ہمارے ہردلعزیز حکمران رجب طیب ایردوان کی ذاتی توہین اور دل آزاری قرار پائے گا جو کہ سیکولرازم کے بہت بڑے داعی ہیں، اور اس پر بھی یہی سزا لاگو ہو گی۔ جناب میاں محمد نواز شریف صاحب کے اقبالی لبرل ہونے کے باوجود لبرل ازم کو کفر کہنے والے بھی پہلے پانچ کروڑ جمع کر لیں اور چودہ سال کی دال روٹی کا ٹفن بندھوا رکھیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ اہم شق وہ ہے جس میں الیکٹرانک دھوکہ دہی کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ نیا قانون کہتا ہے کہ کسی شخص کو دھوکہ دینے یا اسے دھوکے سے تعلق بنانے پر مائل کرنے پر دو سال کی قید یا ایک کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔ یہ شق نہایت خطرناک ہے اور ہماری رائے میں یہ مرد حضرات کے خلاف ایک سازش ہے۔
محتاط اعداد و شمار کے مطابق، جو کہ ہم نے ابھِی ابھی گھڑے ہیں، اس وقت قوم کے آدھے مرد سوشل میڈیا پر خواتین سے عشق کر رہے ہیں، اور بقیہ آدھے خواتین کا پروفائل بنا کر ان سے عشق کروا رہے ہیں۔ یعنی معصوم معصوم مردوں کی آدھی سے زیادہ تعداد اس وقت دھوکہ دے کر تعلق بنا رہی ہے یا پھر الو بن کر مذاق بنوا رہی ہے۔ اب کیوٹ پرنسس، شہزادی، سوہنی پری وغیرہ پروفائل کے مالکان بہت سوچ سمجھ کر لاگ ان ہوں، کہ مقدمہ درج ہو گیا تو لمبی مدت کے لیے لاک اپ ہو جائیں گے۔
ہمیں تو اندیشہ ہے کہ دو تین شہزادیاں اور پرنسسیں اپنی داڑھی مونچھوں سمیت پکڑی گئیں تو پاکستان میں سوشل میڈیا کی ٹریفک کہیں پچاس ساٹھ فیصد تک نہ گر جائے۔ اسی طرح وہ نوجوان بھی جو کہ پرنسس بن کر معصوم لوگوں کو دھوکہ دے کر ان کی معصومانہ خواہشات پر مبنی چیٹ کے سکرین شاٹ اپنی دیواروں پر لگاتے ہیں، وہ تین سال قید اور دس لاکھ جرمانے کی تیاری پکڑ لیں۔ کسی شخص کے خلاف ارداتاً اور سرعام نقصان دہ معلومات کا اظہار یا نمائش کرنے پر یہ مچھندر شہزادیاں اندر ہو جائیں گی۔
لیکن دوسری طرف بقیہ آدھی قوم جو ان شہزادیوں کا نام دیکھتے ہی ان کا تعاقب شروع کر دیتی ہے، وہ بھی ایک سنگین جرم کی مرتکب قرار پائی ہے۔ قانون کہتا ہے کہ کسی حسینہ یا حسین کو مجبور یا خوفزدہ یا ہراساں کرنے کی نیت سے انٹرنیٹ، ویب سائٹ، ای میل سمیت دیگر مواصلاتی ذرائع کی مدد سے اس کا پیچھا کرنے، رابطہ کرنے، نگرانی یا جاسوسی کرنے، بغیر اجازت تصویر کشی یا ویڈیو بنانے اور اس کی نمائش یا تقسیم کرنے پر تین سال تک قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
یہ سب پڑھ کر اور اس کا عمیق تجزیہ کر کے ہم تو اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ سائبر لا بنایا ہی فیس بک کی دھوکے باز فیک لڑکیوں کے خلاف ہے۔ بہرحال ابھی بھِی وقت ہے۔ شہزادیاں شہزاد بن جائیں ورنہ جیل میں چکی پیسا کریں گی۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).