حکومت وقت اور گوئبلز کا نظریہ


آج کے اس جدید دور میں سیاسی جماعتوں میں نفسیاتی جنگ آزمودہ اور کار آمد ہتھیار ہے جس سے سیاسی جماعتیں عوام کے ہوش و حواس پر کاری ضرب لگا کر ان کے دماغ پر صرف اپنے پارٹی منشور پارٹی پالیسیوں کے ایسے خوش نما خواب سجا دیتی ہیں کہ عوام صرف ان کی سیاسی جماعت کو حق پر ہونے پر سوچنے اور سمجھنے لگے

دراصل نفسیاتی حربوں کا استمعال اور اس سے اپنے سیاسی مخالفیں کے خلاف ایک فعال پروپیگنڈے کی لڑائی اب ایک سائنس کا درجہ حاصل کر چکی ہے اور دنیا کے تقریبا تمام ممالک کی سیاسی جماعتیں اپنے مخالفین کے خلاف اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں نازی جرمنی کے حوالے سے گوئبلز کا نام آج بھی زندہ ہے گوئبلز ہٹلر کی پروپیگنڈا مشینری کا موجد اور ماسٹر مائنڈ تھا پولیو کا شکار گوئبلز کا کہنا تھا کہ ”جھوٹ اتنا زیادہ اور مسلسل اس رفتار سے بولو کہ سچ لگنے لگے“ ( یہاں ایک اور بات جو ہم میں سے بہت ہی کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ہٹلر نے جب نازی پارٹی جوائن کی تھی تب وہ بھی اپنی پارٹی میں پروپیگنڈا انچارچ تھا) یہ گوئبلز کی اسی قابلیت اور نفسیاتی حربوں اور پراپیگنڈے کے محاذ پر اس کی صلاحیت کا اعتراف ہے کہ آج اسے پراپیگنڈے کے محاذ پر ایک لیجنڈ کی حیثیت حاصل ہے اور اس کی حکمت عملیوں اور کارکردگی کی بنا پر مقامی سطح کی چھوٹی سی نازی پارٹی کے ہٹلر جو ناکام بغاوت میں جیل یاترا کر چکا تھا کو ناصرف ہٹلر بنایا بلکے اسے پوری دنیا میں ایک سلوگن بنا دیا

سائنس کی نت نئی ایجادات اور خاص طور پر ابلاغ عامہ کے میدان میں جدید ترین ریسرچ اور ایجادات نے اب سیاسی جماعتوں کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ الیکٹرونک پرنٹ اور سوشل میڈیا کی مدد سے پہلے سے زیادہ لوگوں تک اپنی بات پہنچانے میں کامیاب ہو رہے ہیں چنانچے تمدنی ترقی کے اس جدید دور میں پروپیگنڈا کو کلیدی اہمیت حاصل ہے نفسیاتی جنگ سیاسی جماعتوں کے لئے ایسا ہتھیار بن چکا ہے جو مدمقابل کی انفرادی اور قومی شناخت کی اکھاڑ بچھاڑ کے لئے استمعال ہوتا ہے

آپ سرکس کے شیر کی ہی مثال لیجیے اپنی تمام تر قوت فطری طاقت خوفناکی اور جنگل کے بادشاہ کی حیثیت سے اپنے افسانوی تشخص کے باجود وہ اپنے رنگ ماسٹر کے چابک کا غلام ہو جاتا ہے جنگل میں انسان پر لرزہ طاری کر دینے والا یہ جانور ایک آدمی کے ہنٹر کی جنبش کے تابع ہو جاتا ہے یہ سارا کمال اس ماسٹر کا جو مسلسل کوشش کے بعد خونخوار شیر کے ذہین پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیتا ہے اور جنگل کے بادشاہ کو اپنی مرضی سے چلانا اس کے لئے معمول کا کھیل بن جاتا کے رہ جاتا ہے نفسیاتی جنگ بھی ایسا ہی ایک عمل ہے کہ ایک لیڈر کو ایک دوسرا لیڈر اپنی نفسیاتی اور محلاتی سازش سے سیاسی طور پر نقصان پہنچاتا ہے وہی عوام پر نفسیاتی حربوں کے استمعال سے خود کو ایسی کرشماتی شخصیت بنا کر پیش کرتا ہے کہ جیسے وہ واحد انسان ہے جس کے پاس عوامی مسائل کا حل ہے اور وہ چھڑی گھما کر ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے گا۔

موجودہ حکومت بھی کچھ اس انداز میں حکومت میں آگی جس پاس انتخابی منشور سے زیادہ ایک ایسے پروپیگنڈا نما الزامیہ کا بیانہ تھا جو ہٹلر کے پروپیگنڈا انچارچ گوئبلز نے عوام پر آزمایا تھا کہ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ لگنے لگے اور اس بیانیے کو گھر گھر پہنچانے کے لئے آج کے دور میں انہیں وہ سہولتیں میسر تھی جو گوئبلز کو بھی میسر نہیں تھی اس بیانئے سے پی ٹی آئی حکومت میں تو آ گئی مگر انہیں آٹھ ماہ میں ہی اندازہ ہو گیا جس اقتدار کو یہ پھولوں کی سیج سمجھ کر حاصل کرنے کے لئے پروپیگنڈا نما الزامیہ اپنا کر لوگوں کی بیچ چوراہے پگڑیاں اچھال رہے تھے وہ اقتدار ان کے گلے کی وہ مالا بن چکا ہے جسے اب یہ اتارتے ہیں تو رہی سہی مقبولیت بھی کھو دیتے ہیں کیونکے ان پر کارکردگی دکھانے کے لئے جیسے جیسے پریشر بڑھ رہا ہے، حکومتی افراد کی الزامیہ پروپیگنڈا کی سیاست میں اضافہ ہو رہا ہے اب ایک بار پھر وہی گوئبلر کا نظریہ اپنا کر پروپیگنڈا کی نئی کمپین لانچ کر دی گی جس کا۔ عملی مظاہرہ وانا میں نظر آیا جہاں وزیراعظم نے بلاول کو بلاول صاحبہ کہہ کے مخاطب کیا اب حکومت وقت کو کون سمجھائے کہ یہ ڈی چوک کا کنٹیر نہیں بلکہ ان کے گلے میں حکومت کا ڈھول پڑ چکا ہے جیسے انہیں نا چاہتے ہوئے بھی بجانا پڑے گا اگر یہ روکا تو ریاستی نظام رکا مگر یہ سمجھیں تو تب نا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).