سوشل میڈیا پر صحافی حضرات کی کردار کشی


دیگر کئی وجوہات کے علاوہ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت سوشل میڈیا کے ذریعے ہی وجود میں آئی۔ جب جب کسی کام کے لئے گراؤنڈ تیار کیا جانا ہو تو سب سے پہلے سوشل میڈیا کا سہارا لیا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کے آتے ہی حکمرانوں نے عوام کو بہت خواب دکھائے، ایسا لگ رہا تھا کہ موجودہ حکومت کے ہاتھ میں الہ دین کا چراغ ہے، الیکشن کے وقت جو جو وعدے کیے گئے تھے کچھ ہی دنوں میں پورے ہوجائیں گے، بیرونی قرضے ہوں مہنگائی ہو یا بیروزگاری تمام مسائل حکومت کے آتے ہی ختم ہوجائیں گے۔

حالانکہ ایسا ہونا ممکن نہیں تھا، لیکن ایک ہوا بنایا گیا کہ جیسے موجودہ حکومت کا آنا اور تمام مسائل کا حل ہونا بس کچھ دنوں کی بات ہوگی۔ حکومت نے چند دنوں میں دکھانے کے لئے کچھ کام کیے جیسے وزیراعظم ہاؤس کی بھینسوں کی نیلامی، پھر گاڑیوں کی نیلامی، گورنر ہاؤسز کو عوام کے لئے کھولنا، لیکن ان چیزوں سے عوام کا پیٹ نہیں بھرسکتا تھا۔ جوں جوں دن گزرتے گئے، عوام کے آنکھوں کے سامنے سب کچھ حقیقت بن کر نظر آنے لگا۔

مہنگائی کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ عوام کی چیخیں نکل گئی۔ گیس بجلی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور پھر پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ادویات کی قیمتوں میں 400 فیصد تک اضافہ کردیا گیا۔ عوام کے غصہ کو دیکھ کر وزیراعظم نے اپنی کابینہ میں ردوبدل کی، لیکن اس بار وزیر اعظم منتخب نمائندوں کے بجائے ٹیکنو کریٹس پر انحصار کیا، اہم ترین وزارتوں کے قلمدان ٹیکنو کریٹس کے حوالے کردیئے گئے۔ شروع دن سے محسوس ہورہا تھا کہ موجودہ حکومت میں شامل زیادہ تر وزراء کا تعلق پرویز مشرف کی کابینہ سے ہے لیکن اس بار ہونے والی ردوبدل میں زیادہ تر ارکان کا تعلق پیپلزپارٹی کی سابق حکومت سے ہے، اہم ترین وزارت خزانہ کا قلمدان پیپلزپارٹی کے دور میں 3 سال تک وزیر خزانہ رہنے والے حفیظ شیخ کو دیا گیا۔

اس کے باوجود عوام کو ریلیف نہیں مل سکا بلکہ کچھ حکومتی وزراء کے مطابق آنے والے دن زیادہ مشکل ہوں گے۔ ان مشکل حالات کا سامنا کرنے بجائے، عوام کو ان حالات میں ریلیف دینے کے بجائے ایک بار پھر سوشل میڈیا کا سہارا لیا گیا، ایک منظم انداز سے ملک میں صدارتی نظام کے لئے مہم چلائی گئی، تاکہ عوام جو مہنگائی بیروزگاری سے تنگ آچکی تھی کی توجہ ان مسائل سے ہٹاکر ایک شوشہ چھوڑا جائے۔ سوشل میڈیا پر گھری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق ملک میں صدارتی نظام کے لئے چلنے والی سوشل میڈیا مہم نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کیا جانے والا پروپیگنڈہ تھا جس کا مقصد صدارتی نظام کی راہ ہموار کرنا تھا، اس سلسلے میں کم از کم دو گورنرز (سندھ اور خیبر پختون خواہ) نے ٹیلی ویژن پر آکر (ذاتی حیثیت میں ) صدارتی نظام کے فوائد گنوائے ہیں۔ پاکستان میں موجود سینئر صحافیوں نے اس پروپیگنڈہ کا پردہ چاک کیا اور اس منظم مہم کو ایکسپوز کیا، اس کے بعد سوشل میڈیا پر صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی کا طوفان برپا کردیا گیا، کل بروز جمعہ المبارک کے دن ملک کے نامور صحافی حضرات کے خلاف انتہائی نامناسب ٹرینڈز چلائے گئے، ان کی کردار کشی کی گئی ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے آئینہ دکھایا تھا۔

رب نواز بلوچ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رب نواز بلوچ

رب نواز بلوچ سماجی کارکن اور سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتے ہیں، عوامی مسائل کو مسلسل اٹھاتے رہتے ہیں، پیپلز پارٹی سے وابستہ ہیں۔ ٹویٹر پر @RabnBaloch اور فیس بک پر www.facebook/RabDino اور واٹس ایپ نمبر 03006316499 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

rab-nawaz-baloch has 30 posts and counting.See all posts by rab-nawaz-baloch