پی ٹی ایم پر الزا م تراشی: تاریخ سے نابلد ہونے کی نشانی ہے!


پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے آج دبنگ انداز میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی ہے جس میں اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو للکارا گیا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں کی گئی باتوں میں کسی سیاسی جلسے کی تقریر جیسا جوش موجود تھا اور  آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل نے کسی ماہر سیاسی قائد ہی کی طرح قوم کو درپیش مسائل کا تجزیہ کیا اور ان کا حل بھی پیش کردیا۔ تاہم نہ تو اس وقت غصیلے الفاظ کےساتھ ایک ہی سانس میں بھارت اور پشتون تحفظ موومنٹ کا ذکر کرنے کی حکمت سمجھ آسکی ہے۔ اور نہ ہی یہ اندازہ ہو سکا ہے کہ سرحدوں کی حفاظت یا ملک دشمن عناصر کو روکنے کے لئے میجر جنرل صاحب کا یوں جوش و خروش سے تقریر کرنا اور چیلنج دینے کے لہجے میں بات کرنا کیوں ضروری تھا۔

یہ پریس کانفرنس پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ کے انداز خطابت کے علاوہ اپنے موضوعات کے اعتبار سے بھی اہم تھی۔ اس میں ان امور پر بات کی گئی جن کا فوج سے براہ راست تعلق نہیں ہو سکتا۔ ملک کا دفاع ہو یا بعض گروہوں کی مملکت کے خلاف سرگرمیاں یا مدرسوں میں نیا نصاب متعارف کروانے کے علاوہ انہیں مین اسٹریم میں لانے  کے لئے وزارت تعلیم کے تحت کرنے کا معاملہ، ان امور پر ملک کی حکومت ہی فیصلے کرنے کی مجاز ہے ۔ جبکہ فوج بھی کسی بھی دوسرے ادارے کی طرح ان پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ البتہ میجر جنرل آصف غفور کی باتوں سے ایک بار پھر یہ واضح ہؤا ہے کہ پاک فوج تمام قومی امور کو اپنے فرائض کا حصہ سمجھتی ہے اور ان پر اظہار خیال کو بھی فوج کا استحقاق سمجھا جاتا ہے۔

یہ طرز عمل البتہ فیض آباد دھرنے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی آبزرویشن کے برعکس ہے جس میں فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت کے علاوہ، ان کے بارے میں اظہار خیال کو بھی غلط قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلہ میں خاص طور سے میجر آصف غفور کے ہی ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے فوج سے کہا گیا تھا کہ وہ سیاسی بیان دینے سے گریز کرے۔ اس فیصلہ میں جس بیان کو سپریم کورٹ نے نوٹ کیا تھا، وہ 2018 میں ہونے والے انتخابات کی شفافیت کے بارے میں پاک فوج کے ترجمان کی گواہی تھی۔

یوں لگتا ہے کہ پاک فوج کے ترجمان کو سپریم کورٹ کی فیصلہ کے مندرجات سے آگاہی نہیں ہوئی یا پھر وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں دیئے گئے ریمارکس کو خاطر میں لانے کے لئے تیا رنہیں ہیں۔ اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ پاک فوج کے علاوہ حکمران پارٹی نے فیض آباد دھرنا کیس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی ہوئی ہے۔ لیکن کسی فیصلہ کے خلاف صرف اپیل دائر کردینے سے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا کوئی فیصلہ کالعدم نہیں ہوجاتا۔ یہ فیصلہ اسی وقت تبدیل ہوگا جب سپریم کورٹ خود ہی نئے شواہد اور دلائل کی روشنی میں اسے بدلنے یا منسوخ کرنے کا فیصلہ صادر کردے۔ اس تناظر میں میجر جنرل آصف غفور کی سیاسی تقریر نما پریس کانفرنس غیر مناسب اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے اور مشورہ کی خلاف ورزی کے مترادف ہے ۔

اس بحث سے قطع نظر پاک فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس کو غور سے پڑھا جائے تو اس میں تین باتیں نوٹ کی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے بعض باتیں دو ٹوک انداز میں کہی گئی ہیں جبکہ بعض بین السطور موجود ہیں:

1۔ میجر جنرل آصف غفور نے قومی معاملات پر فوج کی دلچسپی اور کمٹمنٹ کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی تائید کی ہے کہ فی الوقت تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم کو فوج کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ اگرچہ یہ بات بالواسطہ طور سے ہی کہی گئی ہے لیکن اسے پاک فوج کے ترجمان کے الفاظ اور لب و لہجہ میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس وضاحت سے ملک میں سامنے لائے جانے والے ان مباحث کی تردید ہوتی ہے کہ فوج موجودہ حکومت کی ناکام معاشی پالیسیوں کی وجہ سے اب معاملات براہ راست اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے اور وزیر اعظم عمران خان آرمی چیف کا اعتماد کھوتے جارہے ہیں۔

 پریس کانفرنس میں اگر اس تاثر کو زائل کرنے کی بالواسطہ کوشش کی گئی ہے تو یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ خارجہ معاملات ہوں، سیکورٹی کے مسائل ہوں یا ملک کے دفاع کا سوال ہو، پاک فوج خود کو ان تمام شعبوں میں براہ راست جوابدہ سمجھتی ہے اور وہی حکمت عملی اختیار کرے گی جو ا س کے نزدیک مناسب اور قومی مفاد میں ہوگی۔ اس حوالے سے کم از کم میجر جنرل آصف غفور نے آج کی پریس کانفرنس کے دوران کی گئی باتوں میں پارلیمنٹ یا منتخب حکومت کے کسی کردار کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali