تحریک انصاف کا یوم تاسیس: سفر تو رائیگاں رہا


تحریک انصاف کا 23 ویں یوم تاسیس اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ پارٹی کے اقتدار میں آ نے کے بعد پہلا یوم تاسیس ہے۔ گزشتہ برس جب تحریک انصاف نے یوم تاسیس منایا تھا تو اس وقت وہ اقتدار سے چند ماہ کی مسافت پر تھی۔ سال رفتہ میں تحریک انصاف اقتدار میں آکر اس ”تبدیلی“ کے بارے میں نعرہ زن تھی جو اسٹیس کو توڑ کر اس ملک کی معیشت اور گورننس کو سدھار کی پٹڑی پر ڈالنے سے متعلق تھی۔ گزشتہ برس پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتحابات کے بعد تحریک انصاف قصر اقتدار میں قدم رکھنے میں کامیاب ہوئی۔

اقتدار کے حصول کے بعد کڑے امتحان کے جو مراحل اس جماعت کو درپیش تھے ان کی سنگینی میں کوئی دو رائے نہیں کہ تباہ حال معیشت اور بیڈ گورننس کے بدنما نمونے حکومتی منظر نامے پر ثبت تھے۔ ایک کڑے امتحان سے نبرد آزما ہونے کے لیے اخلاص نیت کے ساتھ ایک ٹھوس وژن اور قابل عمل حکمت عملی سے نئی حکومت کا لیس ہونا نہایت ضرور ی تھا۔ اقتدار کے سنگھا سن پر براجمان ہونے کے آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد اگر موجودہ حکومت کے بارے میں قطعیت سے ایک بات کہی جا سکتی ہے تو وہ اس کی معیشت اور گورننس کے شعبوں میں بد انتظامی اور کسی ٹھوس اور قابل عمل وژن و پالیسی سے عاری ہونا ہے۔

تحریک انصاف جتنے خوشمنا اور دلفریب نعروں اور وعدوں کے ساتھ برسر اقتدار آئی آٹھ ماہ کے عرصے کے بعد وہ تمام وعدے اور نعرے بے رنگ اور بھدے ہو کر اس کا منہ چڑا رہے ہیں۔ بلاشبہ آٹھ ماہ کا عرصہ کسی حکومت کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ نہیں اور اس کی بنیاد پر اسے یکسر ناکام حکومت قرار دے کر اقتدار سے بے دخل ہونے کے مطالبات کی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن حکومت کا چلن اور رنگ ڈھنگ دیکھ کر نہیں لگتا کہ یہ اپنے انتخابی نعروں اور وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہوسکے۔

ایک نئی سیاسی جماعت کا اقتدار میں آنا بے شک ملک کے لیے ایک نیک شگون تھا لیکن اقتدار میں آنے سے پہلے تحریک انصاف جس نوع کے سمجھوتوں میں بندھی اور مقتدر حلقوں کی آشیرباد سے اس کے سیاسی مخالفین کے لیے زمین تنگ کر دی گئی اس نے تحریک انصاف کے بارے میں وسوسوں کو جنم دیا۔ پاکستان کی ستر سال سے زائد پر محیط تاریخ اس کی شاہد ہے کہ مقتدر حلقوں کی آشیرباد سے اقتدار حاصل کرنے والے کبھی بھی ان وعدوں کی تکمیل نہیں کر سکے جو عوام الناس کی بھلائی کے ساتھ ملک کی مجموعی صورتحال میں بہتری لا سکیں۔

تحریک انصاف کا اقتدار میں آنا تو ممکن بن گیا لیکن اس کے بعد ظہور پذیر ہونے والے حالات نے ان تمام خوش گمانیوں کا خون کر ڈالا جو ایک نئی سیاسی جماعت کے اقتدار میں آنے سے جڑی تھیں۔ وقت موجودہ میں ملک کے معروضی حالات ماضی سے کہیں بدتر ہیں۔ معیشت کا شعبہ اس وقت جس زبوں حالی کا شکار ہے اس کے سامنے ماضی کی حکومتوں کی بد ترین کارکردگی بھی ہیچ ہے۔ جس اقتصادی شہ دماغ کا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا اور اس کے معاشی وژن اور پالیسیوں کے بارے میں جو کان پھاڑ اعلانات کیے جاتے رہے ان میں سے ہوا نکل چکی۔

اسد عمر ملک کی معیشت کو بحرانوں کے بیچ منجدھار میں چھوڑ کر کنارہ کش ہو چکے جن کا متبادل وہی کہنہ سال حفیظ شیخ جن کے بارے میں یہ بات زبان زدعام ہے کہ یہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر وزارت خزانہ کے اہم عہدے پر تعینات کیے جاتے ہیں۔ گورننس کے شعبے میں تحریک انصاف کوئی ایسی جوہری تبدیلی نہیں لا سکی کہ جس نے آٹھ مہینے میں حکومتی امور کو بہتری کی جانب گامزن کیا ہوا ہو۔ دوچار نمائشی نوع کے اقدامات انصافی حکومت کے لیے الٹا جگ ہنسائی کا موجب بنے۔

کفایت شعاری اور سادگی کی مہم جس کا شورو غلغلہ ابتدائی دنوں میں بہت تھا اب ڈھونڈنے سے بھی اس کا معلوم نہیں پڑتا۔ ملک کی ترقی کے لیے سیاسی استحکام کو اولیت حاصل ہوتی ہے لیکن حکومت کے کرتا دھرتا خود ہی سیاسی بے یقینی پھیلانے کے کام میں جتے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی یہ گمان گزرتا ہے کہ موجودہ وزراء کو ابھی تک یقین نہیں آسکا کہ اب وزارتوں کے قلمدان ان کے پاس ہیں اور ان کے فرائض منصبی میں حزب اختلاف پر سنگ باری کی بجائے حکومتی امور میں بہتری اور اپنی وزارتوں میں کارکردگی لانا شامل ہے۔ ان وزراء کی کارکردگی دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ ہم نے ثابت قدمی سے ایک شعبے میں اپنی برتری ثابت کی ہے کہ وزیر چاہے پی پی پی کے دور حکومت کا ہو یا نواز لیگ اور تحریک انصاف کی حکومت کا وہ فقط وزیر ہوتا ہے جو دنیا جہان کے معاملات میں بے تکان بول سکتا ہے لیکن وزارت کے امور سے نابلد ہوتا ہے۔

ہماری سیاسی تاریخ میں تحریک انصاف کا باب مجموعہ اضداد ہے۔ یہ جماعت تبدیلی کی نقیب بن کر ابھری جو روایتی سیاست کے مہروں کے خلاف تھی لیکن اس نے اپنے دروازے پھر انہی روایتی سیاست دانوں کے لیے کھول کر اپنے نظریے کی صداقت پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے۔ جب تحریک انصاف کی حکومت مرکز اور صوبوں میں بن گئی تو وہ اسی ڈگر پر چل پڑی جو ماضی کی حکومتوں کا وتیرہ تھا اور جس کی تحریک انصاف ناقد رہی۔ معیشت اور گورننس کے شعبوں میں وہی بوسیدہ اور ازکار رفتہ نسخے اور ٹوٹکے جو شفا کی بجائے قضا کو دیتے ہیں۔

اس برس تحریک انصاف کا یوم تاسیس اس کے لیے جشن مسرت نہیں بلکہ ماتم مرگ ہونا چاہیے کیونکہ ایک سیاسی جماعت کا بلندی سے پستی کا اس تیزی سے سفر کم ہی چشم فلک نے دیکھا ہے۔ اس یوم تاسیس پر اگر تحریک انصاف نے خود احتسابی کا بھاری پتھر نہ اٹھایا تو پھر یہ کہنا کافی ہوگا کہ ”یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں ہی تو ہے”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).