عمران خان کا آخری اقتدار


ذوالفقار علی بھٹو تب ایک طاقتور مقبول رہنما کے طور پر منظر پر اُبھرے، جب تاریخ کا منہ زور دھارا سب کچھ تلپٹ کر رہا تھا مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہو چکا اور نوے ہزار فوج ہندوستان میں قید ہوگئی تھی بھٹو نے وزارت عظمٰی سنھبالی تو اس کی ذات طاقت کا مرکز ٹھہری لیکن حالات کے پیش نظر یہ سب کچھ عارضی تھا کیونکہ مقتدر قوتوں پر ہر حوالے سے بُرا وقت تھا بعد میں ”برے وقت“ والوں نے نہ صرف بھٹو کا تختہ اُلٹا بلکہ پھانسی پر بھی چڑھایا۔ بھٹو کی مقبولیت بے نظیر کو وراثت میں ملی تو اسے قابو میں لانے کے لئے نواز شریف کو میدان میں اُتارا گیا۔

بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنی اور ایوان میں تقریر کرنے آئی تو ایوب خان، جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمٰن کے بیٹے بھی اسی ایوان میں بیٹھے (یا بٹھائے گئے) تھے۔

نواز شریف تب اس روپ میں تھے جس روپ میں آج کل عمران خان ہیں۔ لیکن وقت کا کمال یہ ہے کہ یہ سب کچھ آپ کی توقع اور منصوبے کے مطابق نہیں کرنے دیتا بلکہ کبھی مخالف سمت میں بھی معاملات موڑ دیتا ہے، سو کل کا لیبارٹری مینو فیکچرڈ اور لاڈلا نواز شریف نہ صرف آج کے ”باغی اور سرکش“ لیڈر کے طور پر موجود ہیں بلکہ دورانِ اقتدار اس نے دوسرے سیاستدانوں کی نسبت بہترین کارکردگی (خصوصًا ترقی اور معیشت کے حوالے سے) بھی دکھائی۔

یہ جو نواز شریف نامساعد حالات میں بھی ایک خوفناک بیانیے پر ڈٹا ہوا ہے اور اس کی مقبولیت ذرہ بھر بھی نہیں گر رہی ہے تو یہ در حقیقت اس کی کارکردگی کو خراج ہے، یعنی وہ اپنی پچھلی کارکردگی کے بل بوتے پر نامساعد حالات سے ٹکرا رہا ہے، لیکن اس وقت سوال یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ عمران خان پر ایسا وقت آئے جس کا سامنا اس وقت نواز شریف کو ہے تو عمران خان اپنی کون سی کارکردگی کا پھریرا لہرائے گا؟

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ نواز شریف اقتدار سے نکالے گئے اور وہ جی ٹی روڈ پر اُمڈتی ہوئی خلقت کے سامنے نمودار ہوئے تواس نے اپنا ہاتھ فضا میں لھراتے ہوئے کہا کہ میرا جرم کیا تھا؟ میں نے تو اس ملک کو ترقی کے راستے پر ڈالا۔

میں تو دُنیا کا سب سے بڑا اقتصادی منصوبہ سی پیک اس ملک میں لے کر آیا؟

میں نے تو وزیرستان سے کراچی تک بدامنی پر قابو پایا؟

میں نے توانائی کے موروثی اور خوفناک بحران سے قوم کو چھٹکارا دلایا اور بارہ ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کرلی؟

میں نے گرتی ہوئی معیشت کو سنھبالا اور سٹاک ایکسچینج کو چوّن ہزار پوائنٹس ( ریکارڈ) پر لے کر گیا۔

میں نے پورے ملک میں سڑکوں اور موٹرویز کے جال بچھا کر اسے ترقی کے راستے پر ڈالا

اور میں نے عالمی سطح پر پاکستان کی برباد امیج کو بہتر بنایا۔ بتاؤ میرا جرم کیا تھا اور مجھے کیوں نکالا؟

جوں جوں وہ اپنی کارکردگی گنتا جاتا توں توں خلقت کی تعداد اور عقیدت میں اضافہ ہوتا جاتا۔ سچ تو یہ ہے کہ نواز شریف کے اُٹھائے گئے سوالات کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں اور یہی وہ رازہے جس نے اسے اعتماد بخشا۔

اب ہم لمحہ بھر کو فرض کر لیتے ہیں کہ عمران خان ( خدا نہ کرے ) نواز شریف جیسے المیے اور حالات کا شکار ہو بلکہ صرف الیکشن کے میدان میں اُترے تو اس کے سیاسی فرد عمل سے بہتان طرازی، گالیوں برباد معیشت انتظامی نااہلی اور خوفناک مہنگائی کے علاوہ کیا برآمد ہوگا؟

کیا اس کی کارکردگی میں یہ سکت موجود ہے کہ وہ اپنی کامیابیاں گنوائے اور خلقت کا اعتماد حاصل کرتا جائے؟

عمران خان کو یقیناً زمینی حقائق سے بعید ایک جذباتی لہر میسر ہے لیکن یہی لہر پہاڑ جیسے حقائق سے کب تک ٹکراتی اور سر پھوڑتی رہے گی۔ بالآخر وہ اتر بھی جائے گی اور سکڑ بھی جائے گی۔ ائیر مارشل اصغر خان کی تاریخ ایک نوحے کی مانند سامنے پڑی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایک کھلنڈرا مقبولیت عمران خان کی سیاست کو کب تک سہارا دیتی رہے گی۔ عمران خان کے نوجوان پیروکار کب تک اپنے ماں باپ کی ان پریشانیوں سے صرف نظر کرتے رہیں گے جو موجودہ حکومت نے دلآزار مہنگائی کی صورت میں ان کے سامنے ایک عفریت کی مانند کھڑی کی ہیں۔ وہ کب تک سوشل میڈیا کی بے معنی پوسٹوں سے جی بہلاتے رہیں گے۔ وہ کب تک اپنے لیڈر کی گالیوں جھوٹ اور احمقانہ گفتگو کا دفاع کرتے رہیں گے۔

وہ کب تک ”پاکستانیوں گھبرانا نہیں“ جیسے بے سروپا جملے سے اطمینان کا جھولا جھولتے رہیں گے۔ وہ کب تک ہر مخالف کو چور ڈاکو والے افیون کھاتے اور حقائق سے بے خبر سوتے رہیں گے۔ وہ کب تک ثاقب نثار اور شیخ رشید جیسے لوگوں کے تعفن زدہ کردار پر عطر و لوبان چھڑکتے رہیں گے۔ وہ کب تک غیر جمہوری قوتوں کے مفادات کی بے ثمر نگہبانی پر مامور ہوں گے۔ (اس حوالے سے حال ہی میں تحریک انصاف کے کراچی کنونشن میں عمران خان کے خلاف کارکنوں کی شدید نعرے بازی ایک الارمنگ اشارہ ہے۔)

سو آخری تجزیہ یہ ہے کہ صورتحال تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے کیونکہ اقتدار سے پہلے عمران خان کے دعوے اور وعدے کب کے ہوا برد ہو چکے ہیں۔ اس کے پیروکاروں کے ہاں اب بھی قدرے جذباتی اُبھار موجود ہے لیکن خوفناک مسائل اور مشکلات بھی ان پر جھپٹ رہے ہیں (ذاتی اور سیاسی دونوں) جو بتدریج لیکن ایک غیر محسوس طریقے سے انہیں متضاد سمت میں موڑ رہی ہے کیونکہ عمران خان کی شدید ناکامی اور قول و فعل میں تضاد عیاں ہے۔

اس کی گرتی ہوئی مقبولیت اور خراب کارکردگی کا اندازہ اس سے لگائیں کہ وہ تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں جسے اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتیں اقتدار میں رکھنے پر متفق ہیں۔

سو صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن مایوسی اور نا اُمیدی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

طاقتور سیاسی جماعتیں اور دانشور طبقات عمران خان اور اس کی جماعت کو جو بھی سمجھتے ہیں لیکن کم از کم سیاسی میدان کا حصہ نہیں سمجھتے اور نہ اس سلسلے میں کسی سنجیدگی کے روادار ہیں۔

اور سب سے اہم یہ کہ اس حوالے سے عمران خان کے سپانسرز نہ صرف تھکے تھکے دکھائی دیتے ہیں بلکہ ان کی پریشانی اور پشیمانی بھی پوشیدگی سے نکلتی جارہی ہے، گو کہ یہ تمام عوامل الگ الگ ہیں لیکن وہ فطری طور پر مشترکہ رائے اور نتیجے کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں جو نہ صرف عمران خان کے اقتدار بلکہ سیاسی بقا پر بھی خوفناک سوالات کو جنم دے رہی ہے کیونکہ کل وہ اقتدار سے رُخصت ہو اور عوامی کٹھرے میں کھڑا ہو تو وہ اپنے عرصہ اقتدار کی گٹھری سے ملک کی بربادی ’معاشی تباہی‘ مہنگائی کا عفریت ’اور گالم گلوچ کے علاوہ نکالے گا کیا؟

اور اس کی حمایت کرے گا کون؟

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).