انسانیت کو Detoxify کون کرے گا؟


کل کچھ دوستوں کے ساتھ وقت گزارا۔ اکٹھے لنچ کیا۔ سب سے زیادہ بات ڈائٹنگ اور ویٹ لاس پر ہوئی۔ کیا کھانا چاھئے اور کیا نہیں؟ کتنی ورزش کرنا چاہیے۔ رمضان بھی تو آ رہا ہے، باڈی ڈیٹاکس کیسے کرنا ہے۔ لیموں، ادرک، پودینہ کب کیسے استعمال کرنا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ تب سے ایک ہی سوچ میں ہوں۔ خبر کی دنیا میں جہاں صبح سے شام تک نت نئی خبروں کا سامنا ہے۔ پھر ان پر تبصرہ، پھر تبصرہ پر تبصرہ، دکھ اور بھوک سے بلبلاتے بچے، دہشت گردی و انتہا پسندی، قتل و غارت، ڈاکہ ذنی کی وارداتیں، سیاسی کرپشن، ڈوبتی معیشت، انفرادی و اجتماعی سطح پر شوبازی و جعل سازی، رویوں کی منافقت، معاشرتی بے حسی اور نا انصافی تصاویر اور وڈیوز کے ثبوتوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ غرض ایک سیلاب ہے۔ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔ اس سب میں کیا ہم ذہنی و فکری یا حسی و روحانی طور پر over weight کا اور over eating کا شکار نہیں ہو رہے؟ کیا ہماری حسوں کو بھی detoxification کی ضرورت نہیں ہے؟ اگر ہے تو کیسے ممکن ہے؟

جہاں انسان پہلے ہی فطرت سے دور ہو چکا ہے۔ کھانے پینے سے لے کر اوڑھنے بچھونے تک کچھ بھی قدرتی نہیں رہا۔ ایک وقت تھا لوگ سوتی لباس پہنتے تھے۔ خوراک سادہ تھی لیکن زہریلی نہیں تھی۔ رویوں میں بھی وہی سادگی تھی۔ ایک دوسرے کا درد تھا۔ احساس اور اعتبار کے رشتے تھے۔ مٹی کے برتن تھے، مٹی کے گھر تھے۔ مٹی سے رشتہ قائم تھا۔ اب تو سب کچھ کنکریٹڈ ہے، سینتھیٹک ہے۔ ایسے میں انسانی رشتے، تعلقات، دوستیاں، محبتیں جیسے ربڑ کے کارخانے بن گئے ہیں۔ عجب حبس کا موسم ہے۔ تازہ ہوا تو درکنار فیکٹریوں کا دھواں انسانی سوچ و فکر کو جیسے اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ انسانی دماغ حسوں کو ری ایکٹ کرتا ہے۔ اور جسم کو واپس عمل کا حکم جاری کرتا ہے۔ یہ ایک چکر کی طرح ہے۔

کمزور، لاغر اور کھوکھلی حسیں ایک کمزور اور ڈیپریس سوچ کو جنم دیتی ہیں۔ یہی ڈیپریس سوچ بے حس معاشرہ کی تشکیل اور کرائم کی موجب ہے۔

ایسی بے حسی میں انسان کی قیمت ختم ہو کے رہ گئی ہے۔ پچھلے ایک ہفتہ میں کتنے ہی بچوں کی جعلی دواوں اور غلط انجیکشن لگنے سے ہلاکت کی خبریں آئی ہیں۔ اور سینکڑوں ایسی خبریں آئی ہیں جس میں انسان انسانیت کے ساتھ کھلواڑ کرتا نظر آیا ہے۔

اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ یزیدی معاشرہ نہیں ہے؟ ایوولوشن کا یہ کون سا سفر ہے؟ اس سب کی ڈیٹاکسیفیکیشن کیسے ہو گی؟

یہ تو طے شدہ بات ہے کہ ایک خوش انسان ہی دوسرے کو خوشی دے سکتا ہے۔ تو خوش کیسے رہا جائے؟ ہم موبائل کا استعمال تو سیکھ گئے ہیں لیکن جو انسانی جسم کی صورت یہ گیجٹ ہمارے پاس ہے اس کا بہتر استعمال کیسے کریں۔ آج کی انسانی نسل جو سہولتوں کے حساب سے خوش نصیب ہے کہ آج کے انسان کو تاریخ کی بہترین سہولتیں میسر ہیں۔ لیکن ایک دوڑ ہے، فرسٹریشن ہے۔ اینگزائٹی ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ اس بار رمضان میں ہم باڈی کے ساتھ انسانیت کی ڈیٹاکسی فیکیشن کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).