بارات واپس لوٹ گئی


گزشتہ روز سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ پر ایک تصویر دیکھی۔ اس تصویر میں بورڈ پر سب سے اوپر ایک لفظ معذرت لکھا تھا۔ یوں تو وہ محض ایک لفظ تھا لیکن جب اس کے نیچے درج پوری تحریر پڑھی تو اندازہ ہوا کہ اس ایک لفظ میں نہ جانے کتنے آنسو اور جذبات قید تھے۔

تحریر میں لکھا تھا کہ ایک باپ اپنی بیٹی کی شادی میں شرکت کے لئے آنے والے تمام معزز مہمانوں سے معافی طلب کرتا ہے، جس کی شادی اس کے سسرال کی بے جا جہیز کی فرمائشوں اور ایک عالیشان پلنگ کے مطالبے کی وجہ سے منقطع ہو گئی ہے۔ کہنے کو تو آسان ہے مگر عملی طور پر یہ جان نکال دینے والی تصویر تھی۔

افسوس کہ وہ باپ جس اذیت سے گزرا اس کی بیٹی کے سسرال والوں کو احساس تک نہ تھا۔ جہیز کی لالچ میں اندھے ہو کر انھوں نے ایک غریب باپ کی مجبوریوں کا خیال نہ کیا۔ خود غرضی اور لالچ کی انتہا کہ ان کا دل اس معصوم لڑکی کی ماں کے آنسوؤں سے بھی نہ پگھلا جس نے اپنی بیٹی کو کتنے ناز سے پالا ہو گا۔

موجودہ دور میں جہیز کا مطالبہ ایک معمول بن چکا ہے۔ لڑکے والے جہیز مانگنے میں ذرہ بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے گویا وہ اپنے بیٹے کا سودہ کر رہے ہوتے ہیں۔ آج ہماری قوم جن وجوہات کی بنا پر پستی کی انتہا پہ پہنچ چکی ہے اس میں ایک بڑا کردار جہیز کے مطالبے کا بھی ہے۔

لڑکی کے ماں باپ مجبور ہو کر جہیز تو دے دیتے ہیں لیکن بعد میں معاشی طور پر بد حال ہو جاتے ہیں۔ آج بھی کچھ پسماندہ علاقوں میں لڑکوں کی بولیاں لگتی ہیں کہ جو زیادہ جہیز دے گا لڑکے کا رشتہ اس گھر کی لڑکی کے ساتھ کیا جائے گا۔ افسوس کہ یہ لوگ حق مہر تو شرعی دینا پسند کریں گے لیکن جہیز انھیں منہ مانگا چاہیے۔ یہ خود غرض لوگ جہیز مل جانے کے بعد بھی چپ نہیں ہوتے بلکہ اس کے بعد ان کی نظر لڑکی کے باپ کی جائیداد کے حصے پر بھی ہوتی ہے۔ ان سب چیزوں کے لیے شادی کے بعد بھی لڑکی کو اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ صرف وہ مرد ہیں جن کا ضمیر اندر سے مردہ ہو چکا ہے

اس لعنت کی وجہ سے نہ جانے کتنی بیٹیاں بال سفید کیے بیٹھی ہوئی ہیں اور نہ جانے کتنی بیٹیوں کی بارات واپس چلی گئی ہے۔ ہم سب تو اس بارے میں بالکل بھی سوچنا مناسب نہیں سمجھتے کیوں کہ ہم تو اپنے آپ میں اس قدر کھو چکے ہیں کہ ہمیں صرف اپنا آپ ہی نظر آتا ہے۔

آج اگر ہم استقامت دکھانے کی کوشش کریں تو ہم آہستہ آہستہ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سب مل کر اس کے خلاف آواز بلند کریں تا کہ پھر کوئی بھی مجبور باپ لوگوں سے بیٹی کی بارات واپس جانے کی وجہ سے معذرت نہ کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).