سوشل میڈیا: کیا قربت کیا دوری


کبھی مکھی کو دیکھا ہے ساری اچھی صاف ستھری چیزیں چھوڑ کر صرف گلی سڑی چیزوں کی طرف لپکتی ہے۔ اسے پاکیزگی میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔ ہم انسان بھی ایسا ہی نہیں کرتے؟ کوئی اچھا کام ہو رہا ہو اس کا ذکر کرتے ہماری جان جاتی ہے اور جہاں کسی سے کوئی چوک ہوئی لگے بھنبھنانے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جہاں سو کام کسی نے بن کہے پوری ایمانداری سے کر دیے وہ کسی گنتی میں نہیں آتے اور جہاں ایک کام کسی وجہ سے نہیں ہو سکا وہ جی کا آزار بن گیا۔ یہ انسانی فطرت کا ازلی ناشکرا پن ہی تو ہے جو حاصل کی نا قدری کرواتا ہے، اور لا حاصل کی جستجو ختم نہیں ہونے دیتا۔

کہتے ہیں بچہ اپنا اور بیوی پڑوسی کی ہی اچھی لگتی ہے۔ ہمیں قریب کی چیزیں دھندلی اور دور کی چیزیں صاف کیوں نظر آتی ہیں؟ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی۔ چند گز دور بیٹھا انسان ذہنی طور پر کتنے ہزار گز دور بیٹھا ہے اندازہ ہی نہیں رہتا اور ہزاروں گز دور بیٹھا انسان کب سمٹ کر ذہن پر سوار ہو گیا پتہ ہی نہیں چلتا۔ تو دوری اور قربت کا کیا ربط رہ گیا۔ ذہنی قربت اور حقیقی قربت میں کیسے فرق کریں۔ دنیا سمٹ کر انگلیوں کی پوروں پر آ گئی۔

ایک کلک سے نا پسندیدہ انسان ہمیشہ کے لئے نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اب کڑھنے کی کیا حاجت جب ایک سیکنڈ میں ایک انگشت کی جنبش سے قصّہ تمام ہو سکتا ہے۔ لیکن کہیں حقیقی زندگی میں بھی تو یہی سہل پسندی نہیں آ گئی۔ اگلے وقتوں میں تو برداشت، درگزر اور رواداری کا سبق پڑھایا جاتا تھا اب تو ان الفاظ کا مطلب بھی سمجھنے والے خال خال ملیں۔ ڈیجیٹل جنریشن کی اقدار بھی جدا ہو گئیں۔ اب کیا کھویا کیا پایا اس کی بیلنس شیٹ کون تیار کرے گا۔ ہوا کچھ یوں کہ دور والے قریب ہو گئے اور قریب والے دور۔ اب یہ گتھی کیسے سلجھائیں۔

کم عمری میں ایک کتاب پڑھی تھی ”آداب زندگی“ سوچتی ہوں اب اگر جدید آداب زندگی لکھے جائیں تو کیا کیا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ کچھ میں سوچتی ہوں کچھ آپ بتائیں یوں جدید آداب زندگی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ نئے زمانے کے مطابق اس کتاب کا نام ”فرار زندگی“ بہت مناسب رہے گا۔ اس لئے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ اصل زندگی سے فرار ہے۔ حقیقت سے فرار اور تخیل میں پناہ۔ خیر اس فرار زندگی کے کچھ انتہائی آسان طریقے بتائے دیتے ہیں۔ اپنی حقیقی زندگی سے راہ فرار اختیار کریں اور موج اڑائیں۔

کچھ لوگ بہت بے سروپا گفتگو کرتے ہیں۔ اب پڑوسن کے میکے میں کتنے نوکر چا کر ہیں، ان کے بھائیوں کی کتنی گاڑیاں ہیں، ان کا شہر کے سب سے مہنگے علاقے میں کتنا بڑا گھر ہے اور گزشتہ برس جب وہ پاکستان گئی تھیں تو انہوں نے سونے کی کتنی چوڑیاں بنوائی تھیں۔ اس ساری تفصیل سے آپ کیا لینا دینا۔ بس جب پڑوسن کی نان اسٹاپ داستان امیر حمزہ شروع ہو چپکے سے اپنا فون نکال کر اپنی پسندیدہ ایپ کھولیں اور فون کی سکرین کو سکرول کرنا شروع کر دیں۔

اس سے ہو گا یہ کہ پڑوسن کی آواز سماعت تک تو پہنچے گی لیکن آپ مفہوم سمجھنے سے قاصر رہیں گی۔ سمجھ کے کرنا بھی کیا ہے۔ بس ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا اور آپ کی قوت سماعت کی دھاک بیٹھ جائے گی کہ آپ دوسروں کی اول جلول باتیں خندہ پیشانی سے سننے کی صلا حیّت سے مالا مال ہیں۔ یقین مانیں اگر آپ کے دل میں ذرا بھی خیال آے کہ تھوڑا سا سننے میں کیا حرج ہے تو فوری طور پر اس خیال کو جھٹک دیں ورنہ شام کو گھر میں نئی چوڑیوں کے تقاضے کے بعد لازمی جھڑپ کا اندیشہ ہے۔ حضرات بھی اپنے ان واقف کاروں پر بخوبی یہ ٹوٹکہ آزما سکتے ہیں جن کی خود ساختہ فتوحات کی داستان کے کبھی نہ ختم ہونے والے ایپی سوڈ سننا کٹھن مرحلہ ہو۔

گھر میں میاں بیوی کا اپنا ذاتی ہیڈ فون ہونا چاہیے اس سے ہو گا یہ کہ دونوں اپنی اپنی دنیا میں مگن رہیں گے اور جو ہلکی پھلکی گپ شپ چلتے پھرتے ہو جاتی ہے اس کا بھی عذر جاتا رہے گا اور اختلا ف رائے کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔

کھانے کی میز پر صا حب اور بیگم یاد سے فون پر اپنا اپنا پسندیدہ یو ٹیوب چینل دیکھنا نہ بھولیں۔ ایک تو اس سے آپ کھانا ہلکے پھلکے ماحول میں تناول فرمائیں گے اور ساتھ ہی کھانے میں سے خامیاں نکالنا بھی یاد نہیں رہے گا۔ روٹی کی گولا ئی ماپنے کی طرف بھی دھیان نہیں جائے گا۔ بیگم کو بھی دھیان نہیں رہے گا کہ کسی بھی گھریلو معاملے پر صا حب کی گو شمالی کر سکیں۔ ۔

گھر کی لینڈ لائن کا فون اٹھانے کی کبھی غلطی نہ کریں۔ سارے پرانے لوگ اسی فون پر رابطہ قائم کرنے کوشش کرتے ہیں۔ بات کریں گے تو ملنے کو کہیں گے اور آپ کا تو وقت بہت قیمتی ہے۔ دوستیاں رشتے داریاں کون نبھائے۔ یونہی آھستہ آھستہ یہ فون بجنا بند ہو جائے گا اور ہم اور ہماری تنہائی جی بھر کے باتیں کریں گے

کبھی کبھی تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ سوشل میڈیا نے ہم سب کو حقیقی زندگی میں اینٹی سوشل کیوں بنا دیا ہے۔ بچوں نے بھی اپنے فون میں پیرنٹل ایڈوائس کی ایپ انسٹال کر لی ہیں اب انھیں منٹ منٹ ہمارا لیکچر سننے کی حاجت نہیں رہی۔

ٹی وی دیکھنے بیٹھو تو وہ بھی سنی سنائی خبریں سنانے میں لگا ہوتا ہے۔ ہرنیوز چینل کا اپنا سچ اور ہر سچ دوسرے نیوز چینل کے سچ سے ایک سو اسی درجے مختلف۔ ہر روز چائے کی پیالی میں نیا طوفان۔ لکھا لکھایا سکرپٹ بدلتے چہرے اور نہ بدلتے ملکی حالات۔

ہم ہر چیز ڈھونڈنے گوگل پر جاتے ہیں اور ہمیں ا س کا پتہ مل بھی جاتا ہے لیکن اگر ہم خود ہی کھو گئے تو کیا گوگل ہمیں ڈھونڈ لے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).