اس شعبے میں بھارت ہم سے بہت پیچھے ہے


دو ہم عمر اور ہم عصر ممالک پاکستان اور ہندوستان، سیاسی کلچر، جغرافیائی محل وقوع معاشی سیٹ اپ اور انتظامی ڈھانچہ ایک جیسا، تاہم ہندوستان سیاسی حوالے سے ہندوستان ہم سے کہیں آگے، ہندوستان میں کبھی مارشل لاء نہیں لگا، ہم ستر سال میں آدھی عمر آمریت کے سائے تلے گزار چکے ہیں۔ ہاں ہندوستان ایک معاملے میں ہم سے کوسوں دور ہے وہ ابھی تک “غدار سازی” کی فیکٹری نہیں بنا سکا ہم اس معاملے میں ماشاءاللہ خود کفیل ہیں۔ ایک نہیں کہیں فیکٹریاں لگا چکے ہیں، ہر دوسرے آدمی کو غدار قرار دے رہے ہیں ۔

حال ہی میں تیزی سے ترقی کرتی اس صنعت میں اضافہ ہوا ہے غدار سازی کا ایک اور یونٹ لگایا گیا ہے اس یونٹ میں پشتونوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جائے گا ۔

ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے دو چیزیں خاص طور پر نوٹ کی ہیں اول ہندوستانی سیاست میں اس پر قومی اجماع ہو چکا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے، سیاستدانوں نے کبھی غیر جمہوری اور غیر دستوری قوت کو اپنے سیاسی تنازعات میں الجھنے کی اجازت نہیں دینی۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان آج تک آمریت سے محفوظ چلا آ رہا ہے۔ وہاں کی اسمبلیوں میں بھی دنگا ہوتا ہے، کرسیاں چلتی ہیں مگر مجال کہ کوئی سیاست دان کسی جرنیل کو مارشل لاء لگانے کی آفر کرے۔ ہمارے ہاں جنرل ایوب سے لے کر مشرف تک، ہر موقع پر کسی نہ کسی پارٹی اور سیاست دان نے غیر سیاسی قوتوں کو حکومت برطرف کرنے کی دعوت دی ہے۔ کبھی یہ دعوت شکریے کے ساتھ رد کر دی جاتی اور کبھی بصد شوق اسے شرف قبولیت بخشا گیا ۔

دو دن ہونے کو ہیں۔ میں نے کتابیں چھان ماریں۔ دنیا بھر کی ای لائبریری کو وزٹ کیا مگر مجھے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ہندوستان کی فوج کا شعبہ تعلقات عامہ کا ترجمان اپنی پریس کانفرنس میں ملک کی معاشی، سیاسی، داخلہ اور تعلیمی امور پر بات کرے۔ جمہوری ممالک میں یہ کام عوام کی منتخب حکومتوں کا ہوتا ہے ۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری فوج پچھلی کئی دہائیوں سے دہشت گردوں کے ساتھ نبردآزما ہے اور قابل ذکر کامیابی بھی حاصل کی، جس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔

ہاں چلتے چلتے ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نہرو دور میں ہندوستان کا ایک جرنیل اس وجہ سے برطرف کیا گیا تھا کہ اس نے سیکرٹری دفاع کو بائی پاس کر کے وزیر دفاع سے ملاقات کی تھی۔ ہمارے ہاں کا راوی اس پر مکمل خاموش ہے کہ کسی سیاست دان نے ایسی کسی جسارت کی کوشش کی ہو۔ بھٹو نے گل حسن اور نواز شریف نے راحیل شریف کو ہٹایا تھا۔ ہم نے ایک کو راستے سے ہٹا کر اگلے جہان بھیج دیا اور دوسرے کو سڑک کے کنارے رکھ چھوڑا ہے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui