بغیر ٹیم کا کپتان


یہ سال 1989 کا ایک دن تھا۔ لاہور میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ میچ جاری تھا۔ اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایک منجھا ہوا بھارتی بلے باز کریز پر کھڑا تھا اور ایک نوجوان پاکستانی فاسٹ باؤلر ایکشن لینے کی تیاری کر رہا تھا۔ یہ وہ باؤلر تھا جسے کپتان کی جوہر شناس نظروں نے لوکل کرکٹ سے دریافت کیا تھا۔ باؤلر نے دوڑنا شروع کیا اس کا رن اپ ایکشن باوقار تھا۔ اس نے گیند کرائی اپیل ہوئی اور امپائر نے انگلی اٹھا کر بلے باز کے آؤٹ ہونے کی تصدیق کردی جو اسے بہت ناگوار گزری اور وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا اور بڑبڑاتا ہوا پویلین کی طرف جانے لگا جیسے وہ آؤٹ نہ ہو اور امپائر کا فیصلہ غلط ہو۔

کپتان نے اس کی اس حرکت کا نوٹس لیا اور اس سے کہا کہ واپس آجائے۔ تماشائیوں کو سانپ سونگھ گیا یہ کپتان کیا کر رہا ہے یہی مسئلہ ہے اس کے ساتھ بس اپنی چلاتا ہے۔ اعتماد رکھو اس کے فیصلے صحیح ہوتے ہیں سپورٹرز تبصرے کرنے لگے۔ بھارتی بلے باز کریز پر واپس ایا۔ فاسٹ باؤلر نے اپنا رن اپ ایکشن اسی اعتماد سے لینا شروع کیا۔ اس کے چہرے پہ کوئی پریشانی نہیں تھی۔ وہ اعتماد سے آگے بڑھا گیند ہوئی جو بلے سے ٹکراتی دنیا کے مایہ ناز وکٹ کیپر کے ہاتھ میں آئی۔ اپیل ہوئی اور ایک بار پھر امپائر کی انگلی فضا میں لہرائی۔ بھارتی بلے باز کے پاس اب پویلین لوٹنے کو علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

کپتان شروع سے ہی تھوڑا ضدی خود پسند اور اکھڑ تھا لیکن اس میں ٹیم کو جتوانے کی لگن تھی۔ وہ کوئی بھی فیصلہ لینے سے نہیں ڈرتا تھا۔

کپتان نے ٹیم کو ورلڈ کپ بھی جتوایا۔ اور وہ ایک کینسر اسپتال بنانے میں بھی جت گیا۔ اس کی شہرت نے اس کا ساتھ دیا اور دل کھول کر عطیات دیے گئیے۔ اسپتال تعمیر ہوا کام کرنے لگا۔ کپتان کو لگا کہ ٹیم اور اسپتال کے ساتھ ساتھ وہ ملک کی تقدیر بھی بدل سکتا ہے۔ اس نے سیاست میں قدم رکھا۔ بہت مشکل وقت دیکھا لیکن اپنی دھن میں لگا رہا۔ ٹیم تشکیل دی پھر اس میں تبدیلیاں کرتا رہا۔ سیکرٹریز سے بھی روابط بڑھائے اس نے سوچا ایک بار حکومت ملے سب ٹھیک کر دوں گا بس اس چکر میں اس نے بہت سی مفاہمتیں بھی کیں اور بالآخر وزیراعظم بن گیا۔

کپتان کے اپنے نائب کپتان سے کچھ بہت اچھے تعلقات نہ تھے اور اس پر کراچی کے کھلاڑیوں کو کم مواقع دینے کے الزام لگتے رہے تھے۔ سیاست میں اس نے کراچی والوں کو بھی گلے لگا لیا لیکن عادت سے مجبور وہ خوش نہ ہوئے۔ کپتان کراچی پر تو ایک آدھ کھلاڑی کے لئے نظر ڈال دیتا تھا لیکن باقی صوبے کی طرف تو یہ نظر بھی نہ اٹھتی تھی۔ سیاست میں آکر بھی اس کا یہی وتیرہ رہا۔ کپتان کی ٹیم زیادہ پنجاب سے ہی بنتی تھی سیاست میں بھی یہ روایت برقرار رہی۔ کپتان کے پٹھان ہونے کے ناطے اسے کے پی کے سے سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا سو سیاست میں بھی یہ اعزاز کے پی کے کو ہی ملا۔ بلوچستان راندہ درگاہ تھا سو رہا۔

اب کپتان بحیثیت وزیر اعظم ٹیم کے میمبرز بدلتا ہے۔ ان کی پوزیشن بدلتا ہے۔ یہاں کے سیلیکٹرز بھی آسان نہیں۔ وہ جس کو وکٹ کیپر بناتا ہے بال اس کے سر کے اوپر سے نکل جاتی ہے۔ جس کو سلپ پر کھڑا کرتا ہے وہ کیچ چھوڑ دیتا ہے۔ جس کو باؤنڈری پر بھیجتا ہے وہ روتا ہے کہ اس لئے ٹیم میں شامل ہوئے کہ باؤنڈری پر سڑتے رہیں۔ جس کو بارہواں کھلاڑی بناتا ہے وہ سیلیکٹرز سے مل جاتا ہے۔ نیا ٹیلنٹ لاتا ہے تو وہ پریکٹس نہ ہونے کی وجہ سے فٹنس برقرار نہیں رکھ پاتا اور ان فٹ ہوجاتا ہے۔

تجربہ کار منجھے ہوئے کھلاڑی لاتا ہے تووہ سٹے بازوں سے جا ملتے ہیں۔ الغرض میچ سنگین مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ مخالفت کا تجربہ کار کھلاڑی کریز پر کھڑا ہے۔ یہ صرف ایک کھلاڑی نہیں بلکہ یونانی متھ کا ایک کائمیرا ہے جس کے ہاتھ ایک پارٹی کے ہیں تو زبان کسی اور کی ہے اور اس کے ہاتھ میں بلا میڈیا کا ہے اور اسے چلانے والے دماغ کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلتی ہیں۔ مہنگائی اور آئی ایم ایف وغیرہ شاندار اننگ کھیل چکے ہیں اور اب یہ تجربہ کار مخالفت کریز پر ہے۔

باؤلر نے گیند کرائی اپیل ہوئی اور امپائر نے ناٹ آؤٹ دے دیا۔ کپتان نے ریویو مانگ لیا اور کیمرا امپائر نے بھی اسے ناٹ آؤٹ قرار دے دیا۔ بلے باز کا سینہ اور چوڑا ہو گیا ہے۔ ریویو لینے سے پہلے باؤلر سے مشورہ بھی نہیں کیا۔ کھلاڑیوں کے درمیان گرما گرمی شروع ہو گئی۔ سپورٹرز جو ہر حال میں ساتھ تھے ان میں بھی کھلبلی مچ گئی۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔ تھکے ہارے باؤلر نے خراب موڈ میں ایک شاٹ پچ گیند کرائی اور بلے باز نے اگلی گیند پر چھکا مار دیا۔ مخالفت ابھی تک کریز پر ہے۔ اور دھواں دار بیٹنگ جاری ہے۔

کپتان ہو یا وزیراعظم، اس کا بھروسا اور اعتماد اس کی ٹیم ہوتی ہے۔ آج بھی کپتان کے خلوص اور لگن سے کسی کو انکار نہیں لیکن سنہ 1989 کے میچ میں کپتان عمران خان کے پاس وقار یونس تھا اور وکٹ کے پیچھے سلیم یوسف تھا جن کے بھروسے اس نے سری کانت کو کریز پر واپس بلا لیا اور وہ اگلی گیند پر پھر آؤٹ ہو گیا۔ 2019 میں وزیراعظم عمران خان کے پاس کوئی وقار یونس نہیں، کوئی سلیم یوسف نہیں بلکہ کوئی کھلاڑی نہیں اور وہ ایک بغیر ٹیم کا کپتان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).