سیاسی صورت حال میں بڑھتی ہوئی بے یقینی


وفاقی کابینہ میں ہونے والی دیگر تبدیلیوں سے قطع نظر، کیا اسد عمر کا استعفیٰ مسائل کا حل ہے؟ اس سوال کا جواب آسان نہیں!

فرد ہو یا قوم، کوئی سیاسی جماعت ہو یا حکومت، کوئی تنظیم ہو یا ادارہ، اس کی اچھی کارکردگی اور ترقی کا انحصار موزوں وقت پر موزوں فیصلہ کرنے پر ہے۔ گو مگو اور تذبذب، کارکردگی کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ جب بر وقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہ ہو اور شکوک و شبہات کی دھند گہری ہو جائے تو ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس خلا سے بے یقینی جنم لیتی ہے۔ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ بے یقینی معیشت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔

سرمایہ صرف امید اور یقین کے سہارے حرکت میں آتا ہے۔ اگر تاجر، صنعت کار، کاروباری لوگ اور سرمایہ کار یہ نہ جان پائیں کہ کل کیا ہونے والا ہے اور کیا انہیں اپنی رقم کے بدلے منافع ملے گا یا نہیں تو دو ہی صورتیں ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ سرمایہ کسی دوسرے ساز گار ملک کا رخ کرتا ہے یا پھر لوگ اپنی رقم تجوریوں میں بھر کر اچھے وقت کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

پاکستان اس وقت بے یقینی کی اسی کیفیت میں مبتلا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی۔ ٹی۔ آئی کوئی واضح اور دو ٹوک معاشی وژن نہیں دے سکی۔ کاروباری لوگ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کریں۔ نتیجہ یہ کہ سرمایہ کاری رک گئی۔ سٹاک مارکیٹ مسلسل گرتی چلی گئی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کم ہوتی گئی۔ افراط زر میں اضافہ ہوتا گیا اور جی۔ ڈی۔ پی کی شرح میں تیزی سے کمی آتی گئی۔ بجلی اور گیس کے نرخ بے انتہا بڑھا دیے گئے جس کی براہ راست زد عام آدمی پر پڑی۔ رمضان کی آمد میں ابھی کچھ دن باقی ہیں لیکن اشیائے خوردو نوش، خاص طور پر پھلوں اور سبزیوں کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ ادویات پہلے ہی کئی گنا مہنگی ہو چکی ہیں۔

معیشت کے معاملے کو تھوڑی دیر کے لئے ایک طرف رکھتے ہوئے امن و امان کی صورت حال پر نگاہ ڈالیے۔ ایک ہی ہفتے میں کوئٹہ اور اوماڑہ کے واقعات نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسی دوران پشاور میں بھی دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑی کارروائی کرنا پڑی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی نہ کسی نوعیت کی دہشت گردی بہرحال موجود ہے۔ ان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں بھی میسر ہیں۔ انہیں کہیں نہ کہیں سے وسائل بھی مہیا ہیں۔

خاص طور پر بلوچستان کو نشانہ بنانا گوادر کے حوالے سے بھی ایک پیغام ہو سکتا ہے۔ بلا شبہ بیرونی عناصر پاکستان کو عدم استحکام میں دھکیلنے کے لئے پوری طرح سرگرم ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان بیرونی عناصر کو اندرونی سہولت کار بھی میسر آرہے ہیں جو بڑی بڑی وارداتیں کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکے ہیں۔ دہشت گردی کے ان پے درپے واقعات نے یقینا عدم استحکام پیدا کیا ہے جو معاشی بے یقینی میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔

دہشت گردی کو بھی تھوڑی دیر کے لئے بھول کر معیشت سے جڑے دو اور معاملات کو دیکھتے ہیں جن کا تعلق قومی معیشت سے ہے۔ ایک تو آئی۔ ایم۔ ایف پیکج جو رخصت ہو جانے والے وزیر خزانہ کے مطابق طے پا گیا ہے۔ نہیں معلوم کہ اب اسد عمر کی فراغت کے بعد آئی۔ ایم۔ ایف کیا موقف اختیار کرتا ہے یا وزارت خزانہ کے نئے ذمہ دار ڈاکٹر حفیظ شیخ طے شدہ پیکج کے بارے میں کیا رائے بناتے ہیں۔ دوسرا اہم معاملہ ”فاٹف“ کا ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف ہماری کارکردگی کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے پاکستان کو ”گرے“ لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔

بھارت اور کچھ دیگر پاکستان مخالف عناصر کی سر توڑ کوشش ہے کہ پاکستان کو ”گرے“ سے نکال کر ”بلیک“ لسٹ میں ڈال دیا جائے۔ پاکستان ہاتھ پاوں مار رہا ہے کہ اسے ”گرے“ سے نکال کر ”وائٹ“ کر دیا جائے۔ فاٹف (FATF) کا یہ معاملہ ایک ایسے وقت طے ہونے جا رہا ہے جب پاکستان میں پے درپے دہشت گردی کے واقعات یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہماری سر زمین پر اب بھی سرکش عناسر موجود ہیں۔ آئی۔ ایم۔ ایف اور فاٹف کی تلواریں ہمارے سروں پر لہرا رہی ہیں جب کہ حکومت کو دو ماہ بعد قومی بجٹ پیش کرنا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ بجٹ کی تیاری میں مصروف ٹیم بھی شدید بے یقینی کا شکار ہو گی۔ کیونکہ اسے کچھ معلوم نہیں، آئی۔ ایم۔ ایف اور فاٹف سے کیا خبریں آئیں گی۔

اب آئیے ”بے یقینی“ کو گہرا کرنے والے ایک اور اہم پہلو کی طرف۔ وہ ہے ”سیاسی انتشار“۔ حکومت اور اپوزیشن میں پہلے دن سے ہی کوئی تعلقات کار قائم نہیں ہو سکے۔ وزیر اعظم کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتیں، کرپٹ ہیں۔ وہ ان کا نام لینے کے بجائے چور، ڈاکو اور لٹیرے کہہ کر پکارتے ہیں۔ کسی ایسے اجلاس میں جانے کے لئے تیار نہیں جہاں آصف علی زرداری یا شہباز شریف موجود ہوں اور انہیں (عمران خان کو) ان۔ ”بد عنوان“ لوگوں سے ہاتھ ملانا پڑے۔ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں صرف چند اتحادیوں کے سبب برتری حاصل ہے لیکن وہ اپوزیشن سے کسی طرح کی راہ و رسم ضروری خیال نہیں کرتی۔ عمران خان کا خیال ہے کہ اپوزیشن سے دور رہ کر یا اسے کنارے لگا کر وہ اپنی عوامی مقبولیت برقرار رکھ سکتے ہیں۔ لیکن نتیجہ یہ کہ قومی اسمبلی اور سینٹ، دونوں مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔ کوئی قانون سازی نہیں ہو رہی۔ ادھر ادھر سے چل چلاوکی خبریں آرہی ہیں اور بے یقینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

شاید یہ سب کچھ ناکافی تھا کہ۔ ”بے یقینی“ کو مزید بڑھانے کے لئے ایک بالکل ہی غیر ضروری بحث چھیڑ دی گئی۔ قیام پاکستان کے بہتر برس بعد کچھ لوگوں نے ”خواب“ دیکھا ہے کہ یہاں پارلیمانی نہیں صدارتی نظام ہونا چاہیے۔ ہم چار مارشل لاوں کی شکل میں چار صدارتی دور دیکھ چکے ہیں۔ ہر صدارتی دور قومی اتفاق میں گہری دراڑیں ڈال گیا۔ صوبوں کے درمیان دوریاں بڑھیں۔ ایسے ہی ایک صدارتی دور میں پاکستان ٹوٹ گیا۔ قائد اعظم سمیت پاکستان بنانے والوں نے وطن عزیز کے لئے پارلیمانی نظام ہی تجویز کیا تھا۔

1956 کا پہلا آئین بھی پارلیمانی تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے سانحے کے بعد قوم نے نئے سفر کا آغاز کرتے ہوئے ایک بار پھر پارلیمانی نظام ہی کو قوم و ملک کے مفاد میں خیال کیا لیکن آج پھر نہ جانے کہاں سے یہ آوازیں اٹھنے لگی ہیں کہ ہمارے مسائل کا حل پارلیمانی نہیں صدارتی نظام میں ہے۔ کوئی پوچھے کہ تقریبا 33 سال سخت گیر قسم کا صدارتی نظام، آدھا ملک گنوانے اور سیاچین بھارت کے حوالے کرنے کے علاوہ کیا دے گیا؟ پارلیمانی نظام ہی صوبائی اور قومی سطح پر یکجہتی کا ضامن ہے۔ ایک فرد ایک ووٹ کے اصول پر صدر چننے کا فیصلہ ہوا تو لامحالہ صدر 60 فیصد آبادی رکھنے والے پنجاب ہی سے آئے گا۔ چھوٹے صوبے یہ کیسے گوارا کر لیں گے؟

بے یقینی کی دھند کوگہرا کرنے والی آندھیاں ہر طرف چل رہی ہیں۔ قومی معیشت ان آندھیوں کی یلغار کے سامنے کھڑی لرز رہی ہے۔ ایسے میں اسد عمر کا استعفیٰ، بے یقینی کم کرنے کے بجائے اس میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ اگر وفاقی کابینہ میں تبدیلی درکار تھی تب بھی یہ وقت بہر حال اس استعفے کے لئے موزوں نہیں تھا۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).