جنگلی تُوت کے نیچے بیٹھی بے جی: آنکھ کیوں بھر آئی؟


یوں تو ہمارے ایریا کے ہر گھر کا ایک نمبر تھا۔ اُس نمبر کا سوائے مقیم اور یا ڈاکیے کے کسی کو نا فائدہ تھا نا علم۔ طرہ یہ کہ سال ہا سال کی چونا گردی کے بعد وہ نمبر آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کی زندہ مثال تھے۔ محلے کے مختلف گھر کو مختلف ناموں سے جانا پہچانا جاتا۔ مثلاً بکرے والوں کا گھر، گدھے والوں کا گھر، فاصل کا گھر، جوتے والے کا گھر، گھنٹی کا گھر، اس کونے والا گھر اور اُس کونے والا گھر وغیرہ وغیرہ۔ یہ نام اہل محلہ نے اپنی آسانی کے لئے رکھ چھوڑے تھے مگر کسی نئے آنے والے کو تو ان کی سمجھ نہیں آ سکتی تھی تو ان کے لیے ہم نے دنیا کا سب سے آسان پتا رکھا ہوا تھا۔

وہ کچھ یوں تھا۔ ”تندور والی گلی تھوڑا سا آگے بائیں طرف عید گاہ، اور عید گاہ کے بغل میں جنگلی تُوت کے درخت“ انہی درختوں کے سائے میں ایک چارپائی پر ایک مائی بیٹھی ہو گی اسی مائی کے سامنے والا ہمارا گھر ہے۔ چارپائی پر براجمان مائی جس کے آسن کو گورے چرا کر لے گئے اور کم بخت اسے وکٹورین اسٹائل کہنے لگے۔ اس مائی کو ہر چھوٹا بڑا۔ بے جی۔ کہتا تھا۔ سوائے بابا جی کے جو بے جی کے سرتاج تھے۔ بابا جی انہیں ”سفیداں“ یا ”شفیداں“ کے نام نامی سے یاد کرتے ان کا گھر ہمارے گھر کے بالکل سامنے تھا۔

اور دوسرا کونا تھا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں سے ہر آنے جانے والا فرد بے جی کی سکینگ سے گزر کر آتا۔ ہر آنے جانے والے پر فرض تھا کہ وہ بے جی کو سلام کرے۔ اور جواب میں بے جی صورتحال کے پیش نظر جواب دیتیں یا تو وعلکم سالام کہتیں یا پھر ایک لمبی سی ہوووووووووووں کرتیں۔ بے جی فقط محلے میں ہی مشہور نہیں تھیں بلکہ پوری لالہ رخ (بستی کاریگراں) میں جانی پہچانی شخصیت تھیں ان کو ہر طرح کی خبریں ہوتی تھیں مثلاً تلاں دار (نیچے والی) گلی میں کس کوارٹر والی کا کون سا مہینہ چل رہا ہے؟ کس کا خاوند اشرف چاٹ والے کی سالی پر لٹو ہے؟ چوتھے کوارٹر والے شاہ صاحب حسن ابدال والے حکیم سے ملاقاتیں کیوں کرتے ہیں؟ فاطمہ تو بے جی کی قریب قریب معتقد ہو چکی تھی۔ جب فاطمہ اُمید سے تھی تو بے جی نے کہا ”ماں ٹرْ کے تکا“ چل کے دکھانے کے بعد بے جی نے با آواز بلند پیشن ِ گوئی داغ دی کہ ”جاتُک ہوسی“ یعنی لڑکا ہی ہو گا۔ اور واقعی جاتُک ہی ہوا۔ بے جی کی عمر لگ بھگ اسی نوے کے پیٹے میں تھی برف کی مانند سفید بال ہلکی ہلکی سفید مونچھیں اور اسی رنگ کے ٹھوری پر سات آٹھ بال اور ناک پر موٹے عدسے کی عینک۔

جو فقط اشتہار تھی کہ میری نظر کمزور ہے۔ نظر کی کمزوری بہانہ تھا کیونکہ جب بھی میں نے چوتھے کوارٹر والی ہیر کو محبت نامہ پہچانے کی سعی لا حاصل کی تو یہ خبر فوراً سے پہلے میری والدہ یا ہیر کی والدہ ماجدہ تک بریکنگ نیوز کی صورت پہنچ جاتی اس ہیر عصر کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ محترمہ بیک وقت پانچ پانچ رانجھے راضی رکھتیں۔ ہمارا نمبر کبھی دوسرا تیسرا اور کبھی کبھی قائم حد سے زیادہ ہونے کی صورت میں ”انتظار فرمائیے“ کی فہرست میں چلا جاتا

گلی میں رہنے والے فیکٹری کے لگے ہوئے ہوٹر سے اس قدر مانوس تھے لگتا اگر ہوٹر نا ہوتا یہ لوگ کبھی وقت کی پابندی نا کر پاتے۔ ہوٹر ہوا تو فیکٹری ہوٹر ہوا تو گھر۔ اس ہوٹر سے ہوٹر تک کے درمیانی وقفے میں محلے ہونے والی تمام نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں پر بے جی کی گہری نظر ہوتی۔

بے جی کی اپنی اولاد تو مناسب تھی ایک بیٹا اور شاید دو بیٹیاں۔ مگر ان کے بیٹے نے اپنے والدین کی فیملی پلاننگ کی ایسی کی تسی کر دی۔ ہر کیلنڈر کے ساتھ ان کے گھر میں ایک نیا مزمان (مہمان) ضرور آتا اگر کسی سال بعض فنی خرابی کے باعث مہمان کی آمد ممکن نا ہوتی تو یہ کمی آنے والے سال میں جوڑے کی صورت میں پوری کر دی جاتی ان دو کمروں کے مکان کو بہت خوبصورت انداز سے تقسیم کیا گیا تھا جس میں گیارہ افراد دو بھینسیں چار بکریاں اکیس مرغیاں چوراسی کلبوتر (کبوتر) ایک بلی اور ایک کالو (کتا) رہتے تھے اس حسن انتظام کی داد نہ دینا زیادتی نہیں تو کیا ہو کہ ہر سال نئے مہمان کے لئے یہ رہائش اپنے بازو وا کر دیتی۔

بے جی کا ذکر ہو اور ہمارے برادر خورد گوگے شاہ کا ذکر نہ ہو۔ شاہ صاحب بے جی سے کچھ ضرورت سے زیادہ دبتے تھے۔ اس کی وجہ ایک سربستہ راز ہے۔ مگر دوستی بھی بہت تھی اعلی حضرت کو نا جانے کس نے دھنیے کی سردائی کے مشورے سے نوازا یہ خبر بے جی تک اللہ جانے کیسے جا پہنچی۔ ۔ بے جی نے دھنیا کی سبز قدمی پر ایسا لیکچر پلایا کہ اعلی حضرت حواس باختگی کی مثال بنے ہر کسی کو بتاتے کہ دھنیا ہی دراصل دنیا میں فساد کی اصل جڑ ہے موصوف ایک عرصہ تک ہر سبز چیز کو دھنیہ سمجھ کر اس سے بدک جاتے۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں بے جی کی نواسی ہماری عاقبت خراب کرنے اپنی نانی کے پاس تشریف لائیں۔ آتے ہی پہلے تو مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا پھر ہمیں پچھلی کھڑکی میں آنے کی دعوت عام عطا کی جو میں نے گلی میں موجود اس کی نانی جو چوکیدار بھی تھیں کے پیش نظر یہ دعوت ملاقات رد تو نہیں کی۔ مگر خوشی دلی سے قبول بھی نہیں کی ایک دو دن تک تو شام کو آونگا والا بہانہ سے ٹالتا رہا مگر محترمہ تاڑ گئیں کہ مابدولت ان کی نانی سے چلتے ہیں۔

انہوں نے بین الاقوامی طعنے کا استعمال کیا کہ تم بزدل ہو پھر کیا تھا ہماری مردانگی نے اڑتا ہوا تیر دبوچنے کی ٹھان لی اور دوپہر کو یہ بہادر انسان بے جی کی نواسی سے ملنے پچھلی والی کھڑکی پر پہنچا اور صاحباں سے حال و احوال ہی پر تھا کہ ایک بجلی کوندی اے کوکو کے پیا کرنا اے؟ لو صاحباں تو نا جانے کب پردہ غیابت میں روپوشی اختیار کر گئی پیچھے رہ گیا مرزا، اس دفعہ صاحباں کے بھائی نہیں، سامنے اس کی نانی تھی۔ میرا تو تقریباً تقریباً پیشاب خطا ہو گیا۔ ٹانگوں کو بہت کنٹرول کیا مگر زلزلہ اس قدر شدید تھا کہ ٹانگوں کا کنٹرول روم دماغ بھی مسلسل کانپ رہا تھا۔ کانپتی ٹانگوں نے کان میں کہہ بیٹا بھاگ۔

وقت پر لگائے اڑتا رہا۔ اچانک ہم پر انکشاف ہوا کہ یہ سرکاری مکان ہمارے وقار کے منافی ہے، گھر بدل لینا چاہیے۔ مکان بدل لیا۔ غم روزگار کی دوڑ میں ہوش ہی نہیں رہا کہ پرانا محلے میں بھی کوئی جاننے والا رہتا ہے۔ پھر خبر آئی بے جی کا بیٹا فوت ہو گیا ہے میں بے جی سے ملنے گیا تو عزم و ہمت کا پہاڑ بے جی بیٹے کی جدائی میں ریت کی دیوار بنی ہر کسی سے پوچھتیں رفیق آسی۔ رفیق آسی؟ رفیق آئے گا؟ میری پوسٹنگ سندھ میں چھور کے صحرا میں ہو گئی۔

گھر بات ہوتی تو کبھی اپنی باتوں سے فرصت ملتی تو اردگرد کا پوچھ لیتا ایک دن بیگم نے بتایا بے جی کی نظر ختم ہو گئی ہے۔ دل نے کہا اب کیا فائدہ؟ جب ضرورت نہیں تھی تب 6 بائی 6 تھی۔ بے جی بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ کچھ دن بعد میری چھوٹی بہن نے بتایا بے جی کا انتقال ہوگیا ہے دل نے کہا لڈی پاؤں۔ مگر یہ کیا۔ میری آنکھوں میں نمی تھی۔ شاید میں یہ جان گیا تھا کہ میدان جنگ میں جب تک مزہ نہیں آتا جب تک مخالف مورچے میں دشمن موجود نہ ہو۔ چھٹی آیا بے جی کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے حاضر ہوا۔ تو محسوس ہوا جیسے بے جی کہہ رہی ہوں۔ رخسانہ (نواسی) ناں کے حال اے، سات جاتک اس۔ اس کے سات لڑکے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).