باڈی شیمنگ ایک روایت


ہمارے ہاں ایک بات بہت عام ہے جسے کسی طرح سے بد تہذیبی نہیں سمجھا جاتا وہ ہے ظاہری خدوخال اور جسامت پہ رائے دینا۔ کسی دوست سے ملیں کہیں کوئی تصویر شئیر کریں یا روز مرہ کے ملنے والے لوگ ہوں سب کے نردیک یہ ایک لازمی جزو ہے کہ وہ جسمانی ساخت پہ بات کریں۔ مہذب معاشروں میں اسے بد تہذیبی سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اسے ایک انداز سے تعلق یا پھر فرینکنس کے اظہار کا ذریعہ سمجھاجاتا ہے۔ یہ بتانا کہ کوئی دبلا ہو رہا ہے۔

اس کی آنکھوں کے گرد حلقے ہیں۔ اس کا وزن بڑھ رہا ہے یا جلد کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ جھریاں ظاہر ہو رہی ہیں یا رنگت نکھر رہی ہے۔ کیوں ضروری ہے؟ کیا لوگوں کے پاس آئینے نہیں ہوتے کہ وہ ان میں خود کو دیکھ سکیں۔ یا وہ اپنی ذات سے اتنی غفلت برت رہے ہوتے ہیں کہ انہیں پتہ نہ چلے کہ وہ دکھنے میں کیسے لگ رہے ہیں۔

ہر انسان اس بات سے شعوری یا لاشعوری طور پہ آگاہ ہوتا ہے اور اس سب کا تعلق براہ راست انسان کی ذہنی جسمانی صحت اور حالات سے ہوتا ہے۔ ایک ایسا شخص جو کسی جسمانی عارضے میں مبتلا ہو وہ صحت مند انسان کی طرح ہشاش بشاش نظر نہیں آ سکتا اس کی بیماری کے اثرات اس کی شکل کے بھی نظر آئیں گے اور جسم پہ بھی۔

اسی طرح ذہنی طور پہ پریشان لوگوں کو وزن کے بڑھنے یا بے تحاشا کم ہونے کے مسئلے کا سامنا رہتا ہے۔ ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو نظام انہضام اور عصبی نظام پہ براہ راست حملہ آور ہوتا ہے۔ اس کے شکار مریض بے خوابی، ایموشنل ڈسٹربنس، ایٹنگ ڈس آرڈر اور عصبی کھنچاؤ جیسے مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ جن کا اثر چہرے پہ اور جسم پہ واضح نظر آناشروع ہو جاتا ہے۔ علاج کے سلسلے میں بھی ان مریضوں کو بعض اوقات سٹیراڈز استعمال کرنا پڑتے ہیں جس سے وزن میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

میں خود اس فیز سے گزر چکی ہوں۔ جس کی وجہ سے میرے وزن میں اچانک اضافہ ہوا تھا۔ اور تب مجھے اتنا شعور نہیں تھا کہ ان کمنٹس کو ٹیکل کر سکوں نتیجہ یہ نکلا کہ میرا سماجی رابطہ کم ہونے لگا مجھے ان لوگوں سے ملنے میں تکلیف محسوس ہوتی تھی جو براہ راست پہلا سوال یہی کرتے تھے۔ ارے یہ تمہیں کیا ہو گیا۔ ایک ہڈیاں نکلی لڑکی سے فربہی کی طرف مائل ہو اس کے لیے یہ نفسیاتی خوف ہی بہت ہوتا ہے کہ کوئی ان ہونی اس کے ساتھ ہو چکی ہے۔

اس سے کانفیڈینس لیول پہ برا اثر پڑا نتیجہ یہ نکلا کہ ادویات کے استعمال کے ختم ہونے کے بعد بھی میں ویسی دبلی پتلی نہیں ہو سکی۔ وجہ گیو اپ (Give up) کرنا تھا۔ حالانکہ اس وقت میرے کام کی نوعیت ایسی تھی جس میں مجھے بہت سے لوگوں سے رابطے میں رہنا ہوتا تھا۔ ایک عام گھریلو لڑکی اگر اس مسئلے سے گزرے تو اسے لازما زیادہ عرصہ لگتا اس فیز سے نکلنے میں۔ بہت بعد میں سمجھ آیا کہ ایج فیکٹر بھی اہم ہے آپ میں جسمانی تبدیلیاں بھی آتی ہیں اور ان کو قبول کرنا ضروری ہے۔

آپ کی احمقانہ قسم کی رائے کسی کے لیے مسئلے کا باعث ہوسکتی ہے۔ سانولی رنگت کے بچے کو مذاق میں کالا کہنا۔ ٹیڑھے دانتوں والے بچے کو توجہ دلوانا کہ تمہارے دانت خوبصورت نہیں۔ کسی بچے کو قد یا کسی بھی جسمانی حوالے سے نشانہ بنانا اس کی شخصیت پہ برا اثر ڈالتا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ خود اعتمادی کو یکسر ختم کر دیتا ہے۔

کام کی جگہوں پہ حقارت سے یا مذاقا رکھے گئے نام یا کسی بھی طرح کا ایسا اشارہ جس سے جسمانی خدوخال پہ بات کی گئی ہو، ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ لیکن چونکہ ہم پاکستانی ہیں اس لیے اپنا حق سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی بات ضرور کی جائے۔

بات صرف اتنی ہے کہ ہماری سوچ اس قدر سطحی ہو چکی ہے کہ ہم کسی بھی بات کو گہرائی سے دیکھنا نہیں چاہتے۔ ہمیں بولنے کو کہنے کو کچھ نہ کچھ ضرور چاہیے۔ پھر چاہے اس کی وجہ سے کسی کو ذہنی اذیت ہو رہی ہو یا پھر آپ اپنے لیے نفرت کا بیج بو رہے ہوں اس کی پرواہ کسے ہے۔ ہم اپنا حق سمجھتے ہیں کہ جو منہ میں آئے وہ بول دیں اور اسے اظہار رائے کی آزادی کا نام دیتے ہیں۔ اس پہ ردعمل دکھانے والے یا شٹ اپ کال دینے والے کو سر پھرا اور مغرور سمجھتے ہیں۔ جتنے وقت ہم دوسروں پہ غور کرنے میں برباد کرتے ہیں اس کا نصف بھی اگر خود پہ صرف کر لیں تو یقین جانیں ہم انسان کہلائے جانے کے لائق ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).