پہلا سالانہ جنوبی پنجاب ادبی میلہ


ادب اور ادبی سرگرمیاں ہمیشہ سے امن و آشتی کے فروغ کا باعث رہی ہیں انسان کی کتھارسس ادب کا بڑا وظیفہ ہے یوں وہ اپنے جذبات کی شدتوں کو ایک راہ دے کر اپنی بقا کو ممکن بناتا رہا مجھے اس حقیقت کا احساس ہے۔ ادب کی طالبہ کی حثیت سے اس پہ بات کرنے اور لکھنے کا موقع ملتا رہا

لیکن اس سب کے حصول کے لیے یہ کافی تو نہ تھا اس کے لیے اس سے کچھ زیادہ لازم ہے، میں انتہائی شکر گزار ہوں محترم محمد مرتضیٰ نور صاحب کی جنھوں نے اس کا اِدراک کرتے ہوئے ادبی حلقوں کے کچھ مہربانوں کی۔ ہمارے بارے مضافاتی ہونے کے تصور کی نفی کی اور جنوبی پنجاب کے ادبی مرکز ملتان میں اس میلے کا اہتمام کیا، میلہ ادبی ہو ثقافتی یا مذہبی، رنگ سے مزین ہوتا اور بہت کچھ سکھانے اور خیال و فکر کو رواں رکھنے کا باعث ہوتا ہے۔ لوگ آپس میں میل ملاقات کرتے ہیں رواج و رسوم سے آگاہی اور فن و آرٹ کا تبادلہ ہوتا ہے افکار اور محبتیں بانٹتے ہیں پرانی قدریں تازہ اور نئی روایات تشکیل کی جاتی ہیں

انھی مقاصد کے حصول کے لیے 2 مئی 2019 بروز جمعرات 10 بجے انسٹی ٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ فناس بہاءالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں جنوبی پنجاب دو روزہ ادبی میلہ کا افتتاح ہوا، افتتاحی تقریب کی صدارت وائس چانسلر ڈاکٹر طارق محمود انصاری نے کی جبکہ صوبائی وزیر توانائی پنجاب ڈاکٹر اختر ملک، پروفیسر ڈاکٹر عصمت ناز وائس چانسلر وومن یونیورسٹی، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر قاضی عبدالرحمن عابد صاحب، ڈاکٹر سجاد نعیم، علی اکبر ناطق اور دیگر نامور شخصیات سمیت لاتعداد سٹوڈنس موجود تھے وزیر ڈاکٹر اختر ملک نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں امن قائم کرنے کے لیے ادبی روایات، کتب بینی اور مکالمے کے کلچر کو فروغ دینا ہو گا ”

ادب اور امن کا چولی دامن کا ساتھ ہے ”وائس چانسلر طارق محمود انصاری صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا“ ادبی میلہ میں شرکت میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے ”محمد مرتضی نور صاحب نے خطاب کرتے ہوئے امن ومحبت، بھائی چارے، روداری اور مساوات کا پیغام دیا، شاکر حسین شاکر صاحب اور دیگر عظیم شخصیات نے بھی اپنے خطاب میں امن و محبت کا پیغام دیا۔ پنڈال کو خوبصورت طریقوں سے سجایا گیا ملتان ایک سرائیکی خطہ ہے اس حوالے سے روایتی کھانے جیساکہ ساگ، مکئی کی روٹی، باجرہ کی روٹی، کچنار، سوہانجنا، ستو، چوری، میٹھی اور نمکین لسی کا اور ملتانی اجرک کا سٹال پنڈال میں لگایا گیا اس کے علاوہ قلفی، آئس کریم، دہی بھلے اور دیگر فوڈزر کے سٹالز، دیگر یونیورسٹیوں کے سٹالز سمیت کتابوں کے سٹالز بھی ( 50 %آف ) ڈسکاونٹ پہ لگائے گئے تمام جامعات کے طلبہ طالبات نے کتابوں سے استفادہ کیا بلکہ لڑکوں نے پنڈال میں بھنگڑے ڈالے، ڈانس کیے سرائیکی، پشتون، پنجابی، سندھی اور دیگر کلچر کے تمام طالبات نے متحد ہو کر امن ومحبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رقص کیا۔

جنوبی پنجاب میں ادب و امن کا فروغ، ادبی تنظیموں کا کردار کے حوالے سے، اس کے ساتھ ہی علم وادب اور خصوصی افراد کی مشکلات کے حوالے سے سرائیکی ایریا اسٹڈی سنٹر ہال با اشتراک شعبہ اردو میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد ہوا، جس کی صدارت معروف دانشور، سرائیکی اگوان ظہور دھریجہ نے کی، معروف نقاد، شاعرہ اور نامورافسانہ نگار صائمہ نورین بخاری، معروف شاعر علی اکبر ناطق، معروف کالم نگار اظہرسلیم مجوکہ خاص مہمانان تھے، تقریب کی کمپئرنگ، معروف کالم نگار، دانشور اور کمپئر عامر شہزاد صدیقی نے کی، جبکہ، رحیم طلب، خورشید صدیقی، کامران مگسی، راشدہ بھٹہ، اشرف جاوید ملک اور دیگر عظیم شخصیات نے تقریب سے خطاب کیا، خصوصی افراد نے اپنی اپنی کامیاب زندگی، اپنے کامیاب مقصد تک پہنچنے کے لیے کن کن مشکلات کا انھیں سامنا کرنا پڑا ان سب مشکلات سے آگاہ کیا تقریب کے اختتام پر ڈائریکٹر سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر ڈاکٹر ممتاز کلیانی صاحب نے معروف افسانہ نگار سابق سیکریٹری کھیل وثقافت گلزار حسین شاہ، معروف شاعر علی اکبر ناطق، معروف شاعر اور دانشور ڈاکٹر سجاد نعیم اود دیگر ٰعظیم ہستیوں کو سرائیکی ایریا اور ریسرچ سنٹر کے حوالے سے بریفنگ دی.

جنوبی ادبی میلہ میں جنوبی پنجاب کے ادب کے فروغ میں اقلیتیوں کا حصہ اور مسائل، تعمیر و ترقی امن میں نوجوان اہل قلم کا کردار سمیت ایک شام نامور اہل قلم کے نام، کے حوالے سے ملتان ٹی ہاؤس میں تقریبات کا انعقاد کیا گیا نامور عظیم ہستیوں سمیت تمام جامعات کے لا تعداد طلبہ و طلبات نے شرکت کی۔ اس سے استفادہ کیا۔

دو روزہ جنوبی ادبی میلہ کے حوالے سے ”جنوبی پنجاب کی خواتین اہل قلم کا ادب و ہم آہنگی کے فروغ میں حصہ“ کی تقریب وویمن یونیورسٹی میں انعقاد کروایا گیاجس کی صدارت وویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر عصمت ناز صاحبہ نے کی تقریب میں نامور خواتین لکھاری ڈاکٹر حمیدہ شاہین صاحبہ، ڈاکٹر روبینہ ترین صاحبہ، ڈاکٹر راشدہ قاضی صاحبہ، ڈاکٹر نجمہ شاہین صاحبہ ”ڈاکٹر شاہدہ رسول صاحبہ، میڈم صائمہ بخاری صاحبہ، میڈم فرحت ظفر صاحبہ، میڈم رفعت ناہید صاحبہ اور بہت سی نامور ادبی شخصیات سمیت لاتعداد سٹوڈنٹس نے شرکت کی۔ علمی وادب، امن وآتشی اور تعلیم کے فروغ کے حوالے سے بہت سی وقیع آراء سامنے آئیں ادب کے ذریعے قومی ہم آہنگی وقت کی اھم ضرورت بن گئی ہے اس کا ادراک کرتے ہوئے شرکائے نے باھمی ڈسکشن اور مہمانانِ گرامی نے اپنی گفتگو میں شدت سے احساس دلایا۔

اگرچہ ادب سے وابستہ یہ شخصیات اپنی تخلیقات میں بھی اس موضوع کی اہمیت کی افادیت پیش کرتی رہی ہیں لیکن اس موقع کی مناسبت سے امن کی اہمیت اور ہم آہنگی کے لیے ادب کو بطورِ ایک ذریعہ سامنے لانے کی اہمیت کا مزید ادراک و احساس پیدا ہوا۔ محمد مرتضیٰ نور صاحب ( کوارڈینیٹر انٹر یونیورسٹی کنسورشیم فارپروموشن آف سوشل سائنسز پاکستان ) نے مہمانوں کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور آخر میں نوجوان نسل کو ایک پیغام دیا۔ امن ہر دور اور ہر انسان کی ضرورت رہی ہے نہ کہ یہ صرف آج کے دور کے انسانوں کی ہی ضرورت ہے اور زبان کو جذبات کی سانس کہا گیا ہے تمام طلبہ وطلبات کو اپنی صلاحیتوّں کو اجاگر کرنے کی تلقین کی ہے اور پلیٹ فارم بھی مہیا کرنے کا بھی وعدہ کیا۔

اس کے ساتھ ہی ٹی ہاؤس میں ایک شاندار مشاعرہ منعقد کروایا گیا جنوبی پنجاب کے رنگ (ڈاکومینٹری ایشین پیس فلم فیسٹیول) ایجوکیشن یونیورسٹی (ملتان کیمپس) میں بھی تقریب کا انعقاد کیا گیا آخر ایک اختتامی تقریب شام موسیقی کا انعقاد ہوا جس میں نامور عظیم ہستیوں، لکھاریوں، اس ایونٹ کو کامیاب بنانے والے کمیٹی ممبران کو شیلڈ سے نوازا گیا اور پھر اس کے دھوم ہی دھوم۔ ساراحال جو ہجوم سے بھرا پڑا تھا موسیقی سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ اس ادبی میلے کے سارے رنگ رنگا رنگ تھے تہذیب و ثقافت اور زبان و کلچر کے انداز جابجا دیکھنے کو ملے۔

مرتضیٰ نور صاحب ان حوالوں سے ایک ویژن کے مالک ہیں اس سے پہلے وہ کئی ادبی میلے انٹرنیشنل سطع پر بھی کراچکے ہیں اور ملتان میں بھی پہلے دو لٹریری فیسٹول کروا چکے ہیں اور اب پہلا جنوبی ادبی میلا کروایا جو بہت کامیاب رہا طلبہ وطلبات اس ایونٹ سے خوب لطف اندوز ہوئے، استفادہ کیا طلبہ وطالبات کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سرگرمیاں یونیورسٹیوں میں ہونی چاہیے تاکہ ہم اپنی صلاحتیوں کو اجاگر کر سکیں بہت سارے سٹوڈنس ہیں جن کے اندر بہت عمدہ صلاحتیں چھپی ہوئی ہوتی ہیں مگر وہ ان میں حوصلہ نہیں ہوتا سٹیج پہ جانے، بولنے کا اس طرح ایونٹ کو اٹنڈ کر کے ان کے اندر بھی حوصلہ، جوش، جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس طرح اپنی صلاحتیوں کو سامنے لا سکتے ہیں اور بہت سے سٹوڈنس اعلیٰ صلاحتیوں کے مالک ہوتے ہیں مگر انھیں پلیٹ فارم فراہم نہیں کیا جاتا۔ محمد مرتضی نور صاحب، تمام جامعات میں جا کر اس طرح ایونٹ کرواتے رہتے ہیں تاکہ ہماری نوجوان نسل کو آگے بڑھنے کا موقع ملے۔ مرتضی نور کے تجربات و تخلیقی ذہن کی بدولت سے یہ پروگرام اور بھی منفرد محسوس ہوا۔

نوجوان نسل میں تخلیقی صلاحیتیں اُبھارنے کے لیے یہ ایک بہترین کاوش تھی۔ جس سے یقیناً بہت کچھ سیکھا اور اپنے تخلیقی سفر میں برتا جا سکتا ہے۔ جنوبی پنجاب کی تعمیر و ترقی اور امن میں کس طرح کردار ادا کر سکتا ہے اس احساس کو زندہ کرنا، یہی اس ادبی میلے کانفرسز اور پروگراموں کا بڑا مقصد ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے اس ضمن میں نوجوانوں لکھاریوں کا بنیادی کردار بنتا ہے جس کی ڈسکوری کے لیے یہ سب مشق ہوئی۔ سب لوگ جو اس حوالے سرگرم اور متحرک رہے ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ مجھے اُمید ہے جنوبی پنجاب کی عوام کو ادب کے ذریعے غربت جہالت عصبیتوں اور منافرتوں سے آزادی دلانے میں ادب اور نو جوان لکھنے والے بنیادی اور انقلابی کردار ادا کرے گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).