ہمارا مستقبل کا ہیرو


بھٹو، اندرا گاندھی، کمال اتاترک، جمال عبدالناصر، نیلسن منڈیلا، مارگریٹ تھیچر، چرچل، لینن علیحدہ علیحدہ ممالک اور نظریات کے ساتھ نہ صرف اپنے ممالک میں سیاسی ہیرو کے طورپر پہچانے جاتے ہیں بلکہ پوری دنیا میں ان کی بعض پالیسیوں سے اختلاف کے باوجود عز ت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی قوم کی بھی خدمت کی اور ان کے اقدامات پوری دنیا پر بھی اثر انداز ہوے۔ ان کی مثالیں علمی اور سیاسی حلقوں میں ہمیشہ سے ہی پیش کی جاتی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی یہ لوگ زیر بحث رہیں گے۔ اگر چہ ان کی شخصیت ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہے لیکن ان تمام لوگوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ وہ ہیرو ہیں۔ یہ تمام لوگ سخت مخالفت اور بعض مرتبہ تضحیک کے باوجود اپنے دور اندیش اقدامات کی وجہ سے اس منزل تک پہنچے۔ یہ اور اس طرح کے اور بہت سے ہیرو پوری دنیا میں ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔

امریکی مصنف جوزف کیمپ بیل نے پانچ دہائیاں پہلے لکھی گئی اپنی کتاب

The Hero with a Thousand Faces

میں ہر معاشرہ میں ہیرو کی موجودگی اور اثر کو اچھی طرح بیان کیا۔ اس کتاب میں وہ بتاتے ہیں کہ کیسے ہر علاقہ میں ہیروکی کہانیاں ہمیشہ سے شامل رہی ہیں۔ ہیروہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔ اکثر اوقات ان کو اتنا دوام ملتا ہے کہ وہ روایات کاحصہ بن جاتے ہیں۔ ان کے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ناقابل یقیں باتیں ان کے نام کے ساتھ جوڑ دی جاتی ہیں اوروہ معاشرہ میں اتنی گہرائی تک نفوذ کر جاتے ہیں کہ عقیدہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ رام، کرشن، ایکیلز، حاتم طائی، سند باد، ڈیوڈ، سلمان، موسیٰ، گوتم بدھ، سکندر و خضر، رستم وسہراب، رانی جھانسی، پدماوتی، چنگیز خاں، رنجیت سنگھ سب حقائق اور روایات سے بڑھتے ہوے عقیدہ کا حصہ بن گئے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ہر ہیرو کی کہانی کم و بیش ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ وہ عام دنیا کا رہنے والا ہوتا ہے اور کسی وجہ سے ایک مافوق الفطرت دنیا میں چلا جاتا ہے جہا ں غیر فطری (برائی) طاقتوں سے اس کا مقابلہ ہوتا ہے۔ غیر مرئی قوتیں اس کی مدد کرتی ہیں اور وہ فتح یاب ہوکر و اپس اپنی دنیا میں آجاتا ہے عوام جو پہلے ہی اس نجات دہندہ کے منتظر ہوتے ہیں۔ اس کی واپسی پراس کو اپنا قائد بنا لیتے ہیں اور وہ ان کے تمام مسائل حل کرتا ہے۔

ہیرو کو ہر معاشرہ میں مرکزی حثییت حاصل ہے اور ان کی مثالیں نیکی و بدی اور کامیابی و ناکامی کا معیار بن جاتی ہیں۔

سیاسی ہیروز کی فہرست دنیا کے مختلف ممالک میں بہت طویل ہے۔ صنعتی انقلاب، جدید علوم اور نئے سیاسی نظریات کے باوجود ابھی تک سیاست میں ہیروکی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ جمہوریت جس میں افراد کی حیثیت کم ہوگئی اور پارٹیاں اہم ہو گئیں اس میں بھی لیڈر کو ہیرو کے طور پر ہی پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن پچھلی تین چار دہائیوں سے پوری دنیا میں کوئی بھی ہیرو اپنی جگہ نہیں بنا سکا۔ ہمارے سیاسی ہیرو اب کہاں گئے؟ کیا اور ہیرو بھی پیدا ہو سکتے ہیں؟

کبھی کبھی ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ایک ہیرو ہمارے درمیان موجود ہے۔ اس لیڈر میں وہ تمام خوبیاں ہیں جن کی ہمیں تلاش تھی۔ امیدوں کے چراغ جل اٹھتے ہیں۔ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ دل اچھلنا شروع کر دیتے ہیں۔ آنکھوں میں مستقبل کے سہانے خواب سجاے، جوق در جوق لوگ اپنی آرام گاہوں کو چھوڑ کر دھوپ چھاوئں کی پرواہ کیے بغیرجھنڈے اٹھاے داعی کے پیچھے بھاگ نکلتے ہیں۔

لیکن ہمیشہ ہوتا وہی ہے کہ ہمارے دل کے طاق میں سجا مجسمہ ایک دم گرتا ہے اور ٹوٹ کر بکھرتے ہوے ہماری روح تک کو زخمی کر دیتا ہے۔ ہم جب اپنے خوابوں کو یوں ریزہ ریزہ ہوا دیکھتے ہیں تو اپنی کم عقلی اور کوتاہ نظری کا پچھتاوہ ہمیں زندہ درگور کر دیتا ہے۔

فیض دلوں کے بھاگ میں ہے گھر بھرنا بھی، لٹ جانا بھی۔

تم اس حسن کے لطف و کرم پہ کتنے دن اتراؤ گے۔

ہم سوچتے ہیں کہ ان سیاستدانوں نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔ ان کا کردار اب اتنا اچھا نہیں رہا۔ وہ تعلیم یافتہ نہیں۔ بے ایمان اور بد کردار ہیں۔ کرپشن سے ان کے ہاتھ رنگے ہوے ہیں۔ ان کی ذاتیات اور کردار کی خامیاں اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ سیاست شرفاء کی لئے مناسب ہی نہیں رہی۔ ایک ہیرو کواینٹی ہیرو ثابت کرنے کے لئے کہ یہ سب مضبوط دلائل ہیں۔ لیکن کیا یہ سب باتیں اس حد تک سچ ہیں؟ پوری دنیا میں ہمیشہ سے حکمرانوں پر اس طرح کے الزامات لگتے رہے ہیں اس کے باؤ جود ان کوعزت ملتی رہی ہے۔ اب کیا تبدیلی آئی ہے کہ کہیں سے بھی ہیرو پیدا نہیں ہو رہے؟

اب میڈیا بہت طاقتور اور فعال ہو چکا ہے اس کی پہنچ اب ایسی جگہوں تک بھی ہو چکی ہے جو ہرد ور میں خفیہ رہی ہیں۔ اب کسی انسان کی زندگی کا کوئی بھی پہلو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ اور میڈیا ان باتوں کی وجہ سے ہی اپنی مقبولیت برقرار کھتا ہے۔ لیکن اس کی یہی خوبی سیاستدانوں کے رستہ کی سب سے بڑی دیوار ہے۔ سیاست میں نظریات حالات کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ افراد کواپنی ہمدردیاں اور وابستگیاں نئے تقاضوں کی مطابق بدلنی پڑتی ہیں لیکن میڈیا اس سیاسی مجبوری کو ارتداد کی حد تک لے جاتا ہے۔ آج کے میڈیا اور سیاست کے دور میں اگر قائد اعظم کانگرس سے مسلم لیگ کی طرف آتے توان کے مخالفین اس بات کو کیسے بیان کرتے؟

اٹھارویں شاہی گھرانے کے فرعون جن میں خداے واحد کو ماننے والا اخناتون بھی شامل ہے اور جولیس سیزر مرگی کے مریض تھے۔ ابراہم لنکن، چرچل، ٹالسٹائی اور گاندھی کا نام امریکہ کی National Alliance on Mental Ilness نے ذہنی مریضوں کی لسٹ میں ڈال رکھا ہے۔ وہ ان کی بیماری کو بائی پولر اور شیزو فرینیا قرار دیتے ہیں۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں ان کے کیا کیا میمز بنتیں۔ اور کیا وہ اس دور میں ہیرو کی منزل کے قریب بھی آسکتے تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں ہونے والی گیلی پولی کی بد ترین شکست کے بعد کیا چر چل کو آج کے دور میں دوسری جنگ عظیم میں ملک کی قیادت دی جاسکتی تھی۔

روزویلٹ کا نام امریکہ کے تین کامیاب ترین صدور میں ابراہم لنکن اور جارج واشنگٹن کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ متعصب اتنا تھا کہ امریکہ میں موجود ایک لاکھ بیس ہزارجاپانیوں کو حراستی مراکز میں قید کردیا۔ اس پر ڈیکٹیٹر شپ کا الزام لگتا ہے۔ No Third term کی روائیت توڑ دی۔ سپریم کورٹ رستہ کی دیوار بنی تو اس کی ہییت ہی بدل ڈالی۔ امریکیوں کا سونا بیس ڈالر فی اونس لے کر ایک نجی ادارے کو دے دیا اور کچھ دن بعدوہ پنتیس ڈالر تک چلا گیا۔ آ ج کا دور ہوتا تو سوشل میڈیا اس کا کیا حال کرتا؟

وہ دور اب سے بہت مختلف تھا۔ تب مخالفین کو جھوٹے، مکار، چور، خائن، ڈاکو، غدار، مرتد کے خطابات سے نہیں نوازا جاتا تھا۔ تب سیاسی مخالف کی ذاتی زندگی پرحملہ آور ہونے والے کو گٹھیا سمجھا جاتاتھا۔ رنجیت سنگھ کی ویشیا بیوی کا ماضی کسی نے نہیں کریدا۔ کسی بڑے لیڈر نے نہرو اور لیڈی مونٹ بیٹن کے تعلقات کو نہیں اچھالا۔ سیاستدان کے بیانات کو کبھی بھی اتنی تیزی سے تروڑ مروڑ کر پیش نہیں کیا گیا۔ ان کے اقدامات اور بیانات کو کبھی بھی فوراً انٹر نیٹ پر تلاش کر کے علمی اور تاریخی حوالوں پر نہیں پرکھا گیا۔

آج کل کا میڈیاکسی بھی لیڈر کو چاہے وہ کتنا بھی نیک نیت، عقلمنداور بہادرہو زیادہ عرصہ تک اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑا رہنے نہیں دیتا۔

اب شفافیت (؟ ) کے اس عظیم دور سے کوئی بھی ہیرو بننے کی صلاحیت کا حامل قائددامن داغدار کیے بغیرنہیں گزر سکتا۔ اس مشکل سے نجات کا اب کوئی رستہ ہے؟

کیمپبیل کا ہیرو اس مسئلہ کو سلجھانے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔ ہیرو ہوتا ہی وہ ہے جو مرئی اور غیر مرئی قوتوں سے لڑ کر کامیاب ہوتا ہے۔ اور یہی اس کے ہیرو کی کہانی کا مرکزی خیال ہے۔ ہیرونیک نامی اور صاد ق وامین کی منازل سے بالا ہو کراپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ زلیخا کے الزامات پر جیل یوسف کی مصر پر حکمرانی کے آڑے نہیں آتی۔ نوجوان کا قتل موسیٰ کو واپسی سے نہیں روکتا۔ اوربتشابع کی کہانی ڈیوڈ کا رستہ کھوٹا نہیں کر سکتی۔ ہیرو بر وقت صحیح فیصلوں اور انسانیت کے مفادات پر مبنی حکمت عملی سے الزامات، خامیوں اور کوتاہیوں پرپردہ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

لیکن اس میں زمانہ حال کے ساتھ مستقبل کی ضروریات اور مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت ہونا چاہیے۔ ہمارے سیاستدان زمانہ کی رفتار کے ساتھ اپنی سوچ کوآگے نہیں بڑھاتے۔ اب دنیا بہت تیزی سے بدل جاتی ہے۔ وہ ابھی بھی اپنے آپ کو مکمل حکمران سمجھتے ہیں بہت سی چیزیں ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔ بہت سے ملکی اور غیر ملکی ادارے حکومت میں حصہ دار بن چکے ہیں۔ ان کے مفٖادات کے رستہ میں اکیلا حکمران رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ ان سب کو بھی اس بات کا پتا ہے۔

وہ بھی عوام کی ذہن سازی کرتے ہیں اور اپنے حامی پیدا کرتے ہیں۔ میڈیا کا استعمال وہ سیاستدانوں سے زیادہ اچھے طریقہ سے کر لیتے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ملکی با اثر اداروں کا ہدف ہوتا ہی کہ کوئی لیڈر اتنا بڑا نہ ہوجاے کہ وہ عوام کا ہیرو بن کر ان کے لیے مسائل کا باعث بنے اور عوامی مفادات کے حصول کی منزل پا کر ان کی لوٹ مار میں رکاوٹ بن جاے۔

آج بھی کوئی سیاستدان ہیرو بن سکتا ہے اگر وہ عوام کا سوچے۔ ان سے اپنے روابط بڑھاے اور وقت کے فرعونوں سے ان کو نجات دلانے کی بات کرے۔ بروقت عوامی مفادات کے فیصلے وہ عصاء بن سکتے ہیں جو عوام کو مشکلات سے نجات دلا سکتے ہیں۔ پاکستان میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی بھی سیاستدان اگر پورے قد سے کھڑا ہو جاے تو عوام اس کا مکمل ساتھ دیں گے۔ افتخار چوہدری نے ہمت کی۔ جم غفیر نکل پڑا۔ عوام بزدل نہیں۔ لیڈر بہادر بنیں۔ عوام اب پھر کسی نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں۔ ہیرو کی جگہ خالی ہے۔ آگے بڑھیں کچھ سال جینے کی بجاے صدیوں زندہ رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).