لیو ٹالسٹائی کی کہانی: دو گز زمین


پیام ساری رات بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح کے قریب اس کی آنکھ لگی۔ پیام نے خواب میں دیکھا کہ سردار اس کے خیمے میں بیٹھا بے تحاشا قہقہے لگا رہا ہے۔ پھر سردار کے خد و خال بدل گئے اور اس کے سامنے وہ مسافر بیٹھا تھا جس نے اسے اس قبیلے کے بارے میں بتایا تھا۔ اب مسافر کے سینگ اور کھر اُگ آئے تھے اور وہ اس کے پرانے مکان کے چولھے کے پیچھے چھپا ہوا شیطان بن گیا تھا، جس کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ جیسے وہ اسے سبق دینے کی دھمکی یاد دلا رہا ہو۔ پھر اس نے دیکھا کہ شیطان کے سامنے فرش پر ایک آدمی ننگے پاؤں لیٹا ہوا ہے۔ پیام نے غور سے اس آدمی کو دیکھنا چاہا۔ یہ ایک لاش تھی۔ لیکن اس کی شکل جانی پہچانی سی تھی۔ یہ شکل پیام کی اپنی شکل تھی۔ ایک چیخ کے ساتھ پیام کی آنکھ کھل گئی۔

صبح ہو رہی تھی۔ پیام ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ سردار کے پاس گیا جو جاگ چکا تھا اور ناشتا کر رہا تھا۔ ناشتے کے بعد قبیلے کے لوگوں کا ایک جھنڈ پیام اور سردار کے پیچھے ہو لیا۔ ایک مقام پر پہنچ کر پیام رک گیا اور سردار کو مطلع کیا کہ وہ یہاں سے زمین کی پیمائش شروع کرنا چاہتا ہے۔

سردار نے بیلچے سے تھوڑی سی زمین کھود کر اس میں ایک ڈنڈے کا سرا دبایا اور اس پر لال کپڑا باندھ کر زمین کی ملکیت کے آغاز کی نشان دہی کر دی۔ وہیں سردار نے ایک اور کپڑ ا بچھا کر، اس پر اپنی ٹوپی اتار کر رکھی اور اس میں پیام کے دو ہزار روبل رکھ دیے۔ بیلچہ پیام کو تھماتے ہوئے سردار نے دوبارہ یاد دہانی کرائی کہ وہ جتنی چاہے زمین اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے لیکن سورج غروب ہونے تک اگر وہ اس مقام تک واپس نہیں آیا تو وہ اپنے دو ہزا ر روبل سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

پیام نے پانی کی بوتل اور روٹی کا بڑا سا ٹکڑا اپنی کمر کی پیٹی سے باندھا اور مشرق کی سمت چل پڑا۔ وہ بیلچہ کندھے پر رکھے، سر اٹھائے تیز تیز قدم بڑھا رہا تھا۔ تقریبا ایک میل چلنے کے بعد اس نے ایک گڑھا کھود کر اس میں ایک لمبی شاخ نشانی کے طور پر لگا دی اور اگلے میل کی طرف چل دیا۔ اسے دور سے وہ ٹیلا دھندلا سا نظر آ رہا تھا جہاں سردار اور قبیلے کے دوسرے لوگ کھڑے تھے لیکن اتنے فاصلے سے ان کی شکلیں نہیں پہچانی جا رہی تھیں۔

تین میل چلنے کے بعد سورج کی تمازت میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اب اسے ٹیلہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے روٹی کے چند لقمے کھائے، پانی کے دو گھونٹ پئے اور پھر چل پڑا۔ دن کا ایک حصہ گزر چکا تھا۔ پیام سوچ رہا تھا کہ ابھی تین حصے اور باقی ہیں۔ اتنی جلدی سمت بدلنے کا کیا فائدہ۔ یہ زمین اتنی خوبصورت ہے کہ اس کو چھوڑنا بڑی غلطی ہو گی۔ بس تین میل اور چلوں گا اور پھر سمت بدل لوں گا۔ وہ پسینے میں شرابور ہو رہا تھا۔ تھکن بھی بڑھ گئی تھی اور سورج کی تمازت میں خاصہ اضافہ ہو گیا تھا۔

”بس اتنا ایک سمت میں کافی ہے۔“ اس نے اپنے آپ سے کہا اور ایک گڑھا کھودا اور ایک شاخ اس میں ڈال دی۔ اب اس نے اپنا رخ بدلا اور بائیں طرف چلنا شروع کر دیا۔ وہ خاصا تھک چکا تھا۔ لیکن اس ڈر سے سستانے نہیں بیٹھا کہیں سو ہی نہ جائے اور سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے، زمین بھی نہ ملے اور پیسے بھی ضبط ہو جائیں۔ وہ چلتا رہا۔ اسے خیال آیا کہ وہ اس سمت خاصہ دور آ چکا ہے اور اگر سمت نہ بدلی تو دیر ہو جائے گی۔ سورج آدھے افق تک آ چکا تھا لیکن ابھی ایک پہر باقی تھا۔

اس نے ایک اور گڑھا کھود کر تیسری سمت کی نشان دہی کی اور پھر چلنے لگا۔ ابھی دو میل ہی چلا ہو گا کہ اسے خیال آیا کہ اگر اس نے سورج غروب ہونے سے پہلے ٹیلے تک پہنچنا ہے تو اسے واپسی کی سمت جانا چاہیے۔ اگر چہ اس کی زمین کی چاروں سمتیں غیر متناسب ہو رہی تھیں لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ سیدھا ٹیلے کی جانب چلے گا۔ آخری سمت چھوٹی ہونے کے باوجود ٹیلہ ابھی کئی میل دور تھا۔

اب سے چلنے میں سخت دشواری پیش آ رہی تھی۔ پاؤں زخمی ہو گئے تھے۔ ان سے خون رس رہا تھا۔ اس کی ٹانگیں جیسے من من بھر کی ہو گئی تھیں۔ وہ صرف چند لمحوں کے لئے آرام کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ڈھلتا سورج کسی کا انتظار کیے بغیر دیکھتے دیکھتے افق کی جانب تیزی سے نیچے آ رہا تھا۔

اوہ خدایا۔ کاش میں پہلی سمتوں میں اتنی دور تک نہ چلتا۔ اب کیا ہو گا؟ کیا میں سورج ڈھلنے سے پہلے ٹیلے تک پہنچ پاؤں گا؟ اس نے اپنی رفتار تیز کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی ٹانگوں میں جیسے جان نہیں تھی۔ ٹیلہ ا خاصے فاصلے پر تھا۔ اب اس نے دوڑنا شروع کر دیا۔ پہلے اپنا کوٹ اتار کر پھینکا۔ پھر پانی کی بوتل اورجوتے بھی پھینک دیے۔ صرف بیلچہ رکھا جس کو وہ سہارے کی لاٹھی کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ اس کے گلے میں کانٹے پڑ گئے تھے، سینہ لوہار کی پھونکی کی طرح پھول پچک رہا تھا۔ اوردل ایسے دھڑک رہا تھا جیسے کوئی ہتھوڑے چلا رہا ہو۔ اسے لگا جیسے اس کا دم نکلے والا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ٹیلے کی جانب تیزی سے دوڑ تا رہا۔ اب اسے ٹیلہ نظر آنے لگا تھا۔ کچھ دیر اور بھاگنے کے بعد اسے قبائلیوں کی آوازیں بھی آنی شروع ہو گئیں۔ ان آوازوں کو سن کر اس کی ہمت بندھی اور اس نے پوری جان کا زور لگا کرمزید تیزی سے بھاگنا شروع کر دیا۔

سورج افق تک پہنچ چکا تھا۔ غروب ہوتا سورج خون میں ڈوبا ہوا لگ رہا تھا۔ پیام اب اپنی منزل سے زیادہ دور نہیں تھا۔ اسے چہرے ہی نہیں سردار کی وہ ٹوپی بھی نظر آ رہی تھی جس میں اس کے دو ہزار روبل رکھے تھے جس کے پاس سردار زمین پر بیٹھا ہوا زور زور سے ہنس رہا تھا۔ پیام کو اپنا خواب یاد آیا۔ اس میں بھی سردار اسی طرح قہقہے لگا رہا تھا۔ پیام سوچ رہا تھا، میں نے اتنی ساری زمین کی ملکیت لے لی ہے لیکن کیا خدا مجھے اتنی مہلت دے گا کہ میں اپنی دولت کے مزے لے سکوں۔ میں نے زمین کے لئے اپنی زندگی لٹا دی ہے۔ کیا میں ٹیلے تک پہنچ سکوں گا؟

پیام نے پھر سورج کی طرف دیکھا۔ اب ا س کا آدھا حصہ افق سے نیچے غائب ہو چکا تھا۔ اپنی بچی کھچی طاقت کا آخری زور لگا کر پیام نے اپنے قدموں کو چلنے پر مجبور کرنا چاہا لیکن اس کی ٹانگوں میں دم نہیں تھا۔ جیسے ہی وہ ٹیلے کے دامن تک پہنچا اچانک تاریکی چھا گئی۔ سورج ڈوب چکا تھا۔ اس نے ایک فریاد بھری آواز میں کہا، ہائے میری سب محنت ضائع گئی۔ میری زندگی کی تمام جمع پونجی لٹ گئی۔ میں تباہ اور برباد ہوگیا۔ وہ شکست تسلیم کر کے اسی جگہ گرنے ہی والا تھا کہ اس نے دیکھا کہ قبائلی چیخ چیخ کر اس کی ہمت افزائی کر رہے ہیں۔ تب اسے خیال آیا کہ اگر چہ ٹیلے کے دامن میں اندھیرا چھا گیا تھا لیکن ٹیلے کی چوٹی سے ابھی بھی روشنی نظر آرہی ہو گی۔

ایک نئے جذبے سے پیام نے پھر سے اپنی پوری قوت جمع کر کے چند تیز قدم چوٹی کی طرف بڑھائے اور دیکھا کہ سورج ابھی تک زرا زرا چمک رہا تھا۔ اسے ٹوپی میں رکھے ہوئے روبل نظر آئے جس کے پاس سردار بیٹھا ہنس رہا تھا۔ پیام کو پھر اپنا خواب یاد آیا۔ اس نے ایک قدم اور اٹھایا لیکن ٹانگوں نے ساتھ نہ دیا اور وہ ایک کرب ناک چیخ مار کر وہیں گر گیا۔ اس کے دونوں بڑھے ہوئے ہاتھ ٹوپی میں رکھے ہوئے دو ہزار روبل پر جا پڑے۔ پیام کا نوکر بھاگتا ہوا آیا۔ اس نے پیام کو اٹھانے کی کوشش کی لیکن دیکھا کہ اس کے منہ سے خون نکل رہا تھا۔ پیام مر چکا تھا۔

نوکر نے پیام کا بیلچہ لیا اور ایک گڑھا کھودا، اتنا بڑا جس میں ایک آدمی دفن ہو سکے۔ شیطان مسکرا رہا تھا۔ انسان کو صرف دو گز زمین ہی تو چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2