لیو ٹالسٹائی کی کہانی: دو گز زمین


پیام ایک غریب مزارع تھا جو تین ایکڑ زمین کے ایک ٹکڑے کو کاشت کرکے اپنے خاندان کو پال رہا تھا۔ ایک دن ماسکو سے اس کی بیوی کی بڑی بہن اس کے گاؤں آئی۔ دُپہر کا کھانا کھانے کے بعد دونوں بہنیں باتوں میں مصروف ہو گئیں۔ ان کی باتیں ِختم ہوتے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ بڑی بہن کہ رہی تھی، ”خدا جانے تم اس دیہات میں کیسے رہ لیتی ہو؟ یہاں ہر طرف گندگی کے ڈھیر ہیں۔ نہ کوئی تھئیٹر، نہ دوست داری، نہ پارٹیاں۔ ایسی زندگی تو عذاب ہے۔“

چھوٹی بہن کہ رہی تھی ”دیکھو بہن ہم بغیر تمھارے تھئیٹر کے ٹھیک ہیں۔ کم از کم خوش تو ہیں۔ میرا اتنا محنتی اور ایمان دار میاں ہے، خدا نے بیٹے دیے ہیں جو تابعداری سے کھیتوں پر کام کرتے ہیں۔ عزت کی روٹی ملتی ہے۔ ہمیں اور کیا چاہیے۔“

بہنوں میں بحث بہت دیر تک چلتی رہی۔ چولھے کے پاس پیام چٹائی پر لحاف اوڑھے دُپہر گزارنے کو لیٹا ہوا سب باتیں سن رہا تھا اور اپنے آپ سے کَہ رہا تھا کہ میری بیوی ٹھیک تو کہتی ہے۔ ہم اس تھوڑے ہی میں خوش ہیں۔ لیکن کاش میرے پاس اپنی زمین ہوتی تو کتنا اچھا تھا۔ پھر میں دنیا کا سب سے بے فکر انسان ہوتا۔ اور تو اور شیطان تک بھی میرا کچھ نہ بگاڑ سکتا۔ شیطان چولھے کے پیچھے چھپا بیٹھا پیام کی لاف زنی سن کرمسکرا رہا تھا۔ اس نے پیام کو سبق دینے کی ٹھان لی۔

گاؤں کی زیادہ تر زمینوں کی مالک ایک عمر رسیدہ بے اولاد بیوہ تھی۔ اس نے اپنی زمینیں مزارعوں کے ہاتھ سستے داموں فروخت کر نے کا فیصلہ کیا۔ پیام نے ساری عمر کی جمع پونجی بیس ایکڑ خریدنے میں لگا دی۔ شروع شروع میں وہ زمیندار بن کر بہت خوش تھا۔ فصلوں سے آمدنی خاصی بڑھ گئی تھی۔ لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس کے ہم سائے کئی کئی سو ایکڑ خرید کر اس سے کہیں زیادہ مالدار بن گئے تھے تو وہ حسد کی آگ میں جلنے لگا اور ہر وقت نا خوش رہنے لگا۔ اب وہ بڑا زمیندار بننا چاہتا تھا۔ شیطان نے اس کی تباہی کا بیج بو دیا تھا۔

ایک دن وہ سر کو ہاتھوں میں پکڑے، اپنے مکان کے باہر بچھی چارپائی پر بیٹھا اپنی قسمت کو کوس رہا تھا کہ ایک مسافر کا ادھر سے گزر ہوا۔ پیام نے مسافر کو میزبانی کی پیش کش کی جس کو مسافر نے احسان مندی سے قبول کر لیا۔ رات کا کھانا کھا کر دونوں چائے کا سماوار ساتھ رکھ کر بیٹھے۔ باتوں باتوں میں مسافر نے بتایا کہ اس گاؤں سے تین سو میل کی مسافت پر تاتاریوں کا ایک قبیلہ آباد ہے جس کے پاس بے انتہا زمین ہے۔ وہ بہت سادہ لوگ ہیں اور اپنی زمین انتہائی کم قیمت پر جو بھی گاہک ملے اس کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں۔ مسافر نے خود سستے داموں میں تیرہ ہزار ایکڑ خریدے تھے۔ مسافر کی باتیں سن کر پیام کی رال ٹپک رہی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ بھی اتنی بلکہ اس سے بھی زیادہ زمین خرید لے تو اس کی زندگی کتنی شان و شوکت سے گزر سکتی ہے۔ اس نے مسافر پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔
”میں اس قبیلے تک کیسے پہنچ سکتا ہوں؟
مسافت کتنے دنوں کی ہے؟
راستہ کتنا کٹھن ہے؟
زمین کی قیمت کیا ہے؟“

مسافر نے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔ اگلے دن جب مسافر اپنی منزل پر روانہ ہو گیا تو پیام نے فیصلہ کیا کہ اپنے بیس ایکڑ، چھہ گھوڑے اور پندرہ گائیں بیچ کرتاتاری قبیلے کے پاس جائے گا اور زیادہ سے زیادہ زمین خرید کر ایک بڑا زمیندار بن جائے گا۔ اس نے سردیاں ختم ہوتے ہی سفر کا ارادہ کیا اور سوائے سکونتی مکان کے باقی سب زمین، جانور اور غلہ فروخت کر دیے۔ اتنے پیسے بیوی کو دے دیے جن میں اس کا چند مہینوں کا گزارہ ہو سکے۔ جیسے ہی موسم زرا گرم ہوا، پیام اپنے نوکر کو ساتھ لے کر گھوڑا گاڑی میں سفر پر روانہ ہوگیا۔ راستے میں ایک بازار سے چائے کی پتی کی دو بڑی پیٹیاں، اون کے دگلے، ریشمی قالین اور تحفے تحائف خریدے، انہیں گاڑی میں لادا اور دس دن کی مسافت طے کر کے تاتاری قبیلے کی حدود میں داخل ہو گیا۔

قبیلے کے لوگ گلہ بانی کرتے تھے۔ تا حد نظر سبزہ زار چراگاہ میں گھوڑے، بھیڑیں اور دوسرے مویشی گٹھنوں تک بڑھی ہوئی گھاس چر رہے تھے۔ ایک بڑے سے دائرے میں خیمے لگے ہوئے تھے۔ قبائلیوں نے پیام کا پر تپاک استقبال کیا اور اس کو ایک خیمے میں لے گئے جس کے فرش پر نمدے اور قالینیں بچھی ہوئی تھیں۔ یہ لوگ قبائلی زبان بولتے تھے۔ صرف ایک آدمی تھا جس کو روسی پر عبور حاصل تھا اور وہی ان کا ترجمان بھی تھا۔

پیام کی خوب خاطر تواضع کی گئی۔ رات کے کھانے کے لئے ایک بھیڑ ذبح کر کے اسے جنگلی چاولوں اور مصحالوں سے بھر کر پکا یا گیا۔ پیام نے چائے اور تحائف ان میں بانٹے۔ ان کو مسافر سے اپنی ملاقات کے بارے میں بتایا اور دو ہزار روبل کی زمین خریدنے کا عندیہ ظاہر کیا۔ گفتگو کے دوران ایک لحیم شحیم شخص کھال کی اونچی ٹوپی اور رنگ برنگ چوغہ پہنے خیمے میں داخل ہوا۔ یہ قبیلے کا سردار تھا۔ پیام نے چائے کی پوری پیٹی، سب سے خوبصورت چوغہ اور ایک قالین تحفے کے طور پر سردار کو پیش کیے۔

جب ترجمان کی وساطت سے سردار کو بتایا گیا کہ پیام بہت ساری زمین خریدنا چاہتا ہے تو وہ ایک فیصلہ کن آواز میں پیام سے مخاطب ہوا۔ ”ہم تمھارے تحائف سے بہت خوش ہیں۔ تم ہمارے مہمان ہو۔ ہم تمہیں خوش آمدید کہتے ہیں اور زمین خریدنے کے لئے تمھاری درخواست قبول کرتے ہیں۔ ان دو ہزار روبل کے عوض تم جتنی زمین چاہو خرید سکتے ہو“

لیکن زمین کی قیمت کیا ہو گی؟ پیام نے سوال کیا۔

”ان دو ہزار روبل میں تم پورے ایک دن کی زمین خرید سکتے ہو“

”ایک دن کی زمین؟ اس کا کیا مطلب ہوا؟ “ پیام یہ قیمت سن کر کچھ سٹپٹا گیا تھا۔

”ایک دن کی زمین کا مطلب یہ ہے کہ تم زمین کے کسی بھی ٹکڑے کا انتخاب کر لو جہاں سے تمھاری زمین کی پیمائش شروع ہو گی۔ صبح ہوتے ہی تم جس سمت میں چاہو پیدل چل کر زمین کی حد بنا سکتے ہو۔ جتنی زمین کو تم ایک دن میں گھیرے میں لے سکتے ہو وہ تمھاری ہو گی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ سورج ڈھلنے سے پہلے تمھیں اسی جگہ پر واپس آنا ہو گا جہاں سے تم نے اپنی ملکیت کے لئے زمین ناپنا شروع کی تھی۔ اگر سورج ڈھلنے تک تم شروع ہونے کی جگہ تک نہیں پہنچے تو تمہارے دو ہزار روبل ضبط ہو جائیں گے۔“

”منظور ہے۔“ پیام نے جوش سے کہا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2