میری سندھو ندی


\"usmanڈیوڈ ڈیون پورٹ ایک محقق ہیں، 1979 میں انہوں نے موہن جو دڑو کے حوالے سے ایک کتاب لکھی، کتاب کا عنوان تھا 2000 قبل مسیح میں ہونے والی ایٹمی تباہی

ڈیوڈ ڈیون پورٹ کا ماننا ہے کہ موہن جودڑو پر آریائی قوم کے کہنے پر خلائی مخلوق نے ایٹمی حملہ کیا تھا، یہ چار ہزار سال پرانی بات ہے

ڈیوڈ ڈیون پورٹ کے مطابق تباہ کرنے والی چیز 50 یارڈز کے احاطے پر موجود تھی جس کے استعمال کے بعد موہن جو دڑو کی ہر چیز پگھل گئی

مہابھارت ہندوؤں کی ایک مقدس کتاب ہے، جو قصے کہانیوں پر مشتمل ہے، اس کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ اور پھر دھماکا ہوا، دھویں کے سفید بادل چھا گئے، وہ دھماکا سورج سے بھی خوف ناک تھا، پانی ابل گیا، ہزاروں کی تعداد میں گھوڑے اور انسان خاکستر ہو گئے

ڈیوڈ ڈیون پورٹ کی تحقیق کے مطابق حملے سے پہلے شہر کے 35 ہزار مکینوں کو خبردار کیا گیا تھا، اکثر نے بات مان لی اور شہر چھوڑدیا، جو رہ گئے، محققین کو ان میں سے 44 کی باقیات بھی ملی ہیں

یہ باقیات ایسی ہیں کہ اکثر بھاگتے ہوئے مارے گئے یعنی ایک گلی میں بچے کی اس کے والدین کے ساتھ باقیات ملی ہیں، تینوں ایک دوسرے \"lost-city-mohenjo\"کے ہاتھ تھامے ہوئے ہیں، 12 سال تک قدیم مخطوطات کا مطالعہ کرنے والے ڈیوڈ ڈیون پورٹ کہتےہیں کہ ان کی اچانک موت کسی دھماکے کا ہی نتیجہ ہوسکتی ہے

موہن جودڑو کی اینٹیں مضبوط تھیں جو کسی معمولی آگ سے پگھل نہیں سکتی تھیں، وہ آگ غیرمعمولی ہوگی ، اس غیرمعمولی ہونے کو ڈیوڈڈیون پورٹ اس دور کے ایٹمی دھماکے سے تعبیر کرتے ہیں

موہن جو دڑو کا اصل نام دراصل ککوترما تھا، یہ دراوڑی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب مرغوں کا شہر ہے، شاید اس شہر کے لوگ چکن شوق سے کھاتے ہوں گے

یہاں سوئمنگ پول تھا، اسٹیم باتھ کی سہولت تھی، پول کے ساتھ چینجنگ رومز تھے اور ہر چینجنگ روم کے ساتھ ایک باتھ روم منسلک تھا

یہاں کھانا ذخیرہ کرنے کے بڑے بڑےگودام تھے، نکاسی آب کے لیے عمدہ انتظامات تھے، گھروں سے گلیوں میں نکاسی آب کی لائن جاتی اور اس لائن کی گزرگاہوں پر پختہ فرش کی تعمیر تھی تاکہ بو اور گندگی پھیلنے کامعاملہ درپیش نہ ہو، مکانات میں ڈرائنگ رومز تھے، ایک اسمبلی ہال بھی تھا، جو شاید سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہوگا

ککوترما کے رہائشیو ں کو جیولری کا بہت شوق تھا، وہاں کی لڑکیاں انگوٹھی، ہار، بندے، بریسلٹ، بندیااور کمر پٹکا پہنتیں\"dancerfront\"

ڈانسنگ گرل بھی ان میں سے ایک لڑکی تھی، جس کا موہن جودڑو کی کھدائی کے دوران مجسمہ ملا ہے

ڈانسنگ گرل کے مجسمے کو غور سے دیکھیں تو اس کے پیر اس پوزیشن میں ہیں گویا وہ محورقص ہو، اک ہاتھ کمر پہ ہے اورایک خاص ادا سے وہ گردن اونچی کرکے دیکھ رہی ہے، جیسے اسے خود پہ بے انتہاغرور ہو

موہن جو دڑو سے ایک مذہبی پروہت کا مجسمہ بھی ملا ہے،ڈانسنگ گرل کا مجسمہ بھارت میں ہے اور پروہت کا مجسمہ پاکستان میں ۔۔

کیا پروہت اور رقاصہ کا آپس میں کوئی رشتہ تھا، کیا ان دونوں کو محبت ہوگئی تھی، یہ ایک ہو بھی پائے یا نہیں، کوئی اس راز کو جان ہی نہیں سکتا

ابھی گوگل نے یوم آزادی پاکستان پر جو ڈوڈل جاری کیا ہے، اس میں رقاصہ کے مجسمے کو پروہت کے ساتھ دکھایا ہے، گوگل والوں کو نہیں معلوم کہ وہ مجسمہ اب پاکستان میں نہیں رہا اور اس کی واپسی میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں، بہرحال گوگل کا شکریہ کہ اس نے پاکستان کے ساتھ رقاصہ کے مجسمے کو دکھایا، بس اوریا مقبول جان کی نظر سے یہ معاملہ دور رہے کہ کہیں وہ گوگل پر فحاشی پھیلانے کا الزام نہ دھردیں

ویسے اگر پروہت کے مجسمے کے بدلے بھارت رقاصہ کا مجسمہ ہمیں دیدے تو سودا برا نہیں ہے،ہمارے یہاں اصلی والے پروہت ویسے ہی بہت وافرمقدار میں پائے جاتے ہیں

نہرو نے موہن جودڑو کی دریافت پہ لکھا تھا کہ آج ہم نے ہندوستان کو دریافت کرلیا، ککو ترما کی اگر سب سے زیادہ فکر کبھی کسی نے کی تو وہ ہندوستانی ہیں، جنہوں نے فلمیں بنائیں، تحقیقاتی کتابیں لکھیں، انگریز ہیں، جنہوں نے ویب سائٹس بنائی ہوئی ہیں، ہڑپہ اور موہن جودڑو کے ڈومین امریکا میں رجسٹرڈ ہیں، پاکستان میں صرف بلاول بھٹو ہے، جس نے موہن جودڑو کی عظمت کو ایک منفرد انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ معاملہ ہماری سیاسی نفرتوں کی بھینٹ چڑھ گیا\"dance\"

دیوار چین آپ نے سنی ہوگی مگر رانی کوٹ میں دیوار سندھ کا ذکر شاید آپ میں سے بہت سوں نےنہ سنا ہو، ابھی میرا وہاں جانے کا اتفاق ہوا تو سن کے علاقے میں ایک صاحب نے کہا کہ کیا پہاڑوں میں سرٹکرانے جارہے ہو، وہاں مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا

یہ درست ہے کہ مجھے وہاں مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ملا مگر یہ مٹی ہی توہے جو میری پہچان ہے، وہاں مجھے ان انسانوں کی خوش بو آتی ہے، جنہوں نے دنیا میں تہذیب کی بنیاد رکھی

ایسی جگہوں پر کھڑا ہو کر میں سوچتا ہوں کہ پانچ ہزارسال پہلے ہم نے یہیں سے دنیا میں تہذیب کی ابتدا کی تھی، ہم دنیا میں تمدن کی بنیاد رکھنےو الے ہیں، ہم سندھو ندی کے بیٹے ہیں، یہ احساس اس فخر سے بہت بہتر ہے کہ ہم دور دیس سے آنے والے کسی جارح پہ ناز کریں

سرسوتی ندی کہیں کھوگئی، سندھو دریا اب بھی بہتا ہے مگر بیچارہ اکیلا ہی بہتا رہتا ہے، اس مقدس دریا سے اب کسی کو پیار نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments