کارل مارکس کے ناقابلِ شکست نظریات


مضمون کے مطابق ایک چینی محنت کش پینگ مِن کہتا ہے ’’باہر کے لوگوں کو ہماری زندگی میں بہت فراوانی نظر آتی ہے، لیکن در حقیقت کارخانے کے اندر زندگی اس سے بہت مختلف ہے۔۔۔ امیر محنت کشوں کا استحصال کر کے دولت کما رہے ہیں۔۔۔ ہم کمیونزم کی راہ دیکھ رہے ہیں۔۔۔ محنت کش مزید منظم ہوں گے۔۔۔ تمام محنت کشوں کو متحد ہونا چاہیے۔‘‘

امریکہ سے لے کر چین اور سپین سے لے کر یونان سمیت دیگر کئی ممالک میں طبقات کے درمیان بڑھتی ہوئی کشمکش کا ایک جائزہ پیش کرنے کے بعد مصنف نتیجہ نکالتا ہے کہ ’’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مستقبل کی بہتری کے مخدوش امکانات کی وجہ سے دنیا بھر کے محنت کشوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ میڈرِڈ اور ایتھنز جیسے شہروں میں لاکھوں افراد نے آسمان سے باتیں کرتی بے روزگاری اور حالات کو مزید بگاڑنے والی کٹوتیوں کے اقدامات کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔‘‘

اس کے بعد وہ اس مضمون کو پڑھنے والے سرمایہ داروں کو تسلی دینے کے لیے لکھتا ہے کہ ’’لیکن ابھی تک مارکس کے انقلاب نے عملی جامہ نہیں پہنا۔ ‘‘ اس بات پر ہم متفق ہو سکتے ہیں۔ ابھی تک سوشلسٹ انقلاب نہیں آیا۔ لیکن مصنف کو امید ہے کہ ایسا کبھی ہو گا بھی نہیں۔ اس بات سے ہم اتفاق نہیں کر سکتے۔

مصنف محنت کشوں کو اس انداز میں پیش کر نے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ نظام کی تبدیلی نہیں چاہتے بلکہ اس میں اصلاحات کے خواہاں ہیں۔ اس کام کے لیے وہ یونیورسٹی آف پیرس کے نام نہاد ’’ماہرِ مارکسزم‘‘ یاک رانسیئے کا سہارا لیتا ہے۔ رانسیئے ان یونیورسٹی پروفیسروں میں سے ہے جوخود کو ترقی پسند ظاہر کرتے ہیں لیکن در حقیقت ہر وقت مارکسزم کے بنیادی نظریات کو جھٹلا رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً جب وہ کہتا ہے کہ ’’مظاہرے کرتے ہوئے طبقات موجودہ سماجی و معاشی نظام کا تختہ الٹنے یا اس کی تباہی کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ آج طبقاتی جدوجہد کا مطالبہ نظام کو درست کرنے کا ہے تا کہ دولت کی ازسرنو تقسیم کر کے اسے طویل مدت کے لیے زیادہ قابلِ عمل اور پائیدار بنایا جا سکے۔ ‘‘

پروفیسر رانسیئے کا تجزیہ کہ محنت کش سوشلسٹ انقلاب کا مطالبہ نہیں کر رہے، سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھنے کے خواہش مندوں کی تسلی کا باعث ہو سکتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’لیبر اور سوشلسٹ پارٹیوں اوران کی حکومتوں کی کہیں بھی نئی صف بندی اوران کے ہاتھوں موجودہ معاشی نظام کی تبدیلی کے امکانات بہت ہی محدود ہیں۔ ‘‘

اس کے استدلال کی بنیاد ہر جگہ پر مزدور تحریک اور خصوصاً اس کے لیڈروں کی موجودہ کیفیت ہے۔ اگر عالمی محنت کش طبقے کی تحریک کے مستقبل کا انحصار ان ہی لیڈروں پر ہے تو پھر پروفیسر صاحب درست ہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ لیڈر ساری زندگی لیڈر نہیں رہتے۔ نظام کا بحران تمام نظریات کا امتحان لے رہا ہے۔ نظام میں اصلاحات کے خیال پر اس نظام کے بند گلی میں پھنس جانے سے سوال اٹھ رہے ہیں۔ اب ماضی کی طرح اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس ماضی کی دہائیوں میں طبقاتی جدوجہد کے ذریعے جیتی گئی تمام اصلاحات کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ ہر جگہ پر محنت کشوں کو دو نسلوں پہلے کے حالاتِ زندگی میں جھونکا جا رہا ہے۔

فرانسیسی پروفیسر کی باتوں سے لگتا ہے کہ انہیں اس بات کی سمجھ نہیں کہ ابتدا میں محنت کش یہ سوچ لے کر نہیں آتے کہ انقلاب ہی واحد راستہ ہے۔ شروعات میں وہ اجرتوں، حالاتِ زندگی اور فلاح و بہبود پر ہونے والے حملوں کے خلاف لڑتے ہیں۔ وہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ہی کسی حل کی توقع کر تے ہیں۔ وہ معاشی عروج کے دنوں کی واپسی کا خواب یکھتے ہیں جب اصلاحات ممکن تھیں اور زندگی کچھ قابلِ برداشت لگتی تھی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ تجربات ان امیدوں کو توڑ ڈالیں گے۔

سارے یورپ، امریکہ، عرب، افریقہ اور ایشیا میں بڑے پیمانے کا سیاسی عدم استحکام ہے جس کا اظہار انتخابات میں ہو رہا ہے۔ ایک وقت میں مظبوط رہنے والی پارٹیاں حالات کے دباؤ کے زیرِ اثر برباد ہو چکی ہیں جس کی ایک مثال یونان کی پاسوک (PASOK)  پارٹی ہے۔ محنت کش حکومت میں بیٹھ کر کٹوتی کرنے والی ہر جماعت کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں۔ یعنی محنت کش یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا نہیں چاہتے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک وہ کٹوتیوں کے خلاف لڑائی کے لیے درکار پالیسیوں اور پروگرام کو نہیں جان پائے۔

مارکسسٹ ہمیشہ سچی بات کرتے ہیں، تب بھی جب اسے سمجھنا دشوار ہو۔ دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو درپیش مسائل کا سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے کوئی حل ممکن نہیں ہے۔ جن تک طاقت سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ میں ہے وہ اسے اپنی دولت اور مراعات کو بچائے رکھنے کے لیے استعمال کریں گے جس کا بوجھ محنت کش عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ اس نظام میں اصلاحات نہیں کی جا سکتیں۔ اسے تبدیل کرنا ہو گا۔

ٹائم میگزین کے اس مضمون کا مصنف لکھتا ہے کہ ’’اگر پالیسی ساز منصفانہ معاشی مواقع کو یقینی بنانے کے نئے طریقے دریافت نہیں کرتے تو پھر دنیا بھر کے محنت کش ایک ہو سکتے ہیں۔ مارکس کا انتقام حقیقت بن سکتا ہے۔‘‘

ہم سمجھتے ہیں کہ نہ صرف مارکس کا معاشی تجزیہ بلکہ اس سے اخذ کردہ سیاسی نتائج بھی درست تھے۔ نظام کا بحران ناگزیر طور پر دنیا بھر کے محنت کشوں کو انقلابی نتائج اخذ کرنے پر مجبور کرے گا۔ محنت کش طبقے کی بڑی تنظیموں، پارٹیوں اور ٹریڈ یونینوں میں ایک ریڈیکل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان کی موجودہ قیادت کو امید ہے کہ بحران ختم ہو جائے گا اور جلد یا بدیر وہ پہلے والی کیفیت میں لوٹ جائیں گے جہاں انہوں نے مالکان کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر رکھے تھے۔ لیکن یہ دیوانے کا خواب ہے!

ہمیں کئی برسوں کی کٹوتیوں اور میعارِ زندگی میں شدید گراوٹ کا سامنا ہے۔ یہ سمجھ آنے پر کہ کٹوتیوں کے مختصر عرصے کے بعد یہ بحران جانے والا نہیں اور اس نظام میں کوئی بہتر مستقبل نہیں، محنت کش طبقے کے پاس واحد راستہ اس نظام کا انقلابی طریقے سے خاتمہ ہو گا۔ موجودہ کیفیت اس جانب بڑھ رہی ہے۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2