رضا باقر کی تقرری: پاکستان میں آئی ایم ایف کا مصری ماڈل اپنانے کے امکانات بڑھ گئے


ڈاکٹر رضا باقر کی بطور گورنر اسٹیٹ بینک تعیناتی سے پاکستان میں آئی ایم ایف کے مصری ماڈل اپنانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ وہ اس وقت تک مصر میں آئی ایم ایف کے چیف تھے اور ماضی میں کئی ممالک میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ فنڈ کے مصری ماڈل سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ ایک سینئر حکومت افسر کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر رضا باقر کو وسیع تجریہ ہے۔ تفصیلات کے مطابق، ڈاکٹر رضا باقر کے گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان بنانے کے سبب پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مصر کے ماڈل کو اپنائے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

 ا س پورے تقابل میں کچھ دلچسپ ربط بھی ہے۔ ڈاکٹر رضا باقر فی الحال مصر میں آئی ایم ایف کے مقامی سربراہ بھی ہیں۔ تاحال یہ معلوم نہیں ہے کہ رضا باقر ریٹائرمنٹ لے کر آئی ایم ایف کو خیر باد کہہ دیں گے یا نہیں کیوں کہ اگر وہ صرف رخصت لیتے ہیں تو مفادات کے ٹکراؤ کا سوال پیدا ہوجائے گا۔

مصر میں 2016 سے ستمبر 2018 تک آئی ایم ایف کے تین سالہ پروگرام کے تحت غربت میں اضافہ ہوا ہے جو 35 فیصد سے 55 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ مصر کو فراہم کردہ تین سالہ ای ایف ایف پروگرام اس بات کا شاہد ہے کہ ای جی پی / یو ایس ڈی کے تحت شرح مبادلہ تقریباً دگنی ہو گئی۔ یعنی کرنسی کی قیمت گر کر آدھی رہ گئی۔ اسی طرح جولائی 2017 میں مہنگائی میں اضافہ 33 فیصد تک ہو گیا، جس کی وجہ سے مصر کے مرکزی بینک کو پالیسی شرح کو 19 اعشاریہ 25 فیصد بڑھانا پڑا۔ اس کے باوجود مصر کے تجارتی خسارے میں بہتری لانے میں کوئی فائدہ نہیں ہوا کیوں کہ مصر کی برآمدات میں اضافہ ہوا تھا اور وہ ستمبر 2016 میں 5 اعشاریہ 26 ارب ڈالرز سے بڑھ کر ستمبر 2018 میں 6 اعشاریہ 78 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا۔

 تاہم مصر کو اس مشکل سے اس کی سیاحت کی صنعت نے نجات دلائی کیوں کہ وہاں کئی تاریخی اور مذہبی مقامات ہیں۔ ذرائع کے مطابق مصر کے سابق وزیر خزانہ نے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو بتایا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے مصری ماڈل پر عمل درآمد سے قبل پاکستان کو بہت سوچ بچار کرنا ہوگا کیوں کہ مصر میں جب آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مہنگائی میں اضافہ ہونا شروع ہوا تھا تو ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب یوٹیلیٹی بلز خاص طور پر گیس کی قیمتیں بہت بڑھ گئی تھیں کیوں کہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت سبسڈیز واپس لے لی تھیں۔

 مصر کے سابق عہدیدار کا موقف تھا کہ اردن نے بھی آئی ایم ایف پروگرام لیا تھا اور سیاسی انتشار کا شکار ہوگیا تھا، جس کے بعد حکومت میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ سابق اقتصادی مشیر برائے وزارت خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے بھی آئی ایم ایف کے مصری ماڈل کو پاکستان کی معیشت کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا اور ترقی رک جائے گی۔

ڈاکٹر رضا باقر فی الوقت مصر میں آئی ایم ایف کے مقامی سربراہ ہیں۔ ان کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ 12 ارب ڈالر قرضے کے اقتصادی اصلاحاتی پروگرام میں حکام کی مدد کریں، جب کہ مصر کے آئی ایم ایف سے مضبوط تعلقات برقرار رکھیں۔ وہ انہیں پالیسی مشورے دیں اور تکنیکی معاونت فراہم کریں۔ مصر دوسرا ملک ہے جہاں وہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ 2005 سے 2008 تک منیلا میں آئی ایم ایف کے مقامی نمائندے کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ جہاں فلپائن کے صدر نے انہیں سفارتی میرٹ کا آرڈر ”آرڈر آف سکاٹونا“ سے نوازا تھا۔

ڈاکٹر رضا باقر ساڑھے اٹھارہ سال سے آئی ایم ایف میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ اس سے قبل 2016۔ 2017 میں بلغاریہ اور رومانیہ میں آئی ایم ایف سربراہ رہے۔ 2012 سے 2016 تک آئی ایم ایف ڈیٹ پالیسی ڈویژن کے سربراہ رہے۔ جب کہ 2009 سے 2011 تک آئی ایم ایف کی ابھرتی ہوئی مارکیٹس ڈویژن کے نائب چیف رہے۔ وہ اب تک قبرص، گھانا، یونان، جمیکا، پرتگال، تھائی لینڈ، اور یوکرائن وغیر ہ میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔

آئی ایم ایف سے قبل وہ عالمی بینک میں بھی دو سال خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ڈاکٹر رضا باقر کی تحقیق اقتصادیات سے متعلق متعدد جرنلز میں شائع ہوچکی ہے ان میں جرنل آف پولیٹیکل اکانومی اور کوارٹرلی جرنل آف اکنامکس شامل ہے۔ وہ 1999 سے 2000 تک میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں وزیٹنگ اسکالر بھی رہے۔ وہ برکلے کی یونی ورسٹی آف کیلیفورنیا سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کرچکے ہیں۔ جب کہ ہارورڈ یونی ورسٹی سے انہوں نے اکنامکس میں اے۔ بی (میگنا کم لاؤڈ) کیا ہے۔

حکومت کے ایک سینئر افسر کے مطابق رضا باقر کی تقرری قواعد کے مطابق ہو رہی ہے اور جس جس ملک میں ان کی پوسٹنگ رہی ہے وہاں ان کی شہرت اچھی رہی ہے اور انہوں نے آزادانہ کام کیا ہے اور کامیابی سے معاملات چلائے ہیں۔ بڑی بات ہے کہ ایک پاکستانی نژاد افسر ایک بین الاقوامی ادارے میں اتنے اہم عہدوں پر رہا ہے۔ یہ آئی ایم ایف کو جانتے ہیں، اس لئے یہ ان سے زیادہ بہتر انداز سے ڈیل کرسکتے ہیں۔ جہاں جہاں ان کی پوسٹنگ رہی ہے وہ کامیاب رہے ہیں۔ اگر کسی ملک کی آئی ایم ایف سے ڈیل ہوئی ہے تو ان ملکوں کی پالیسی اور رضا مندی سے ہوئی ہے۔

(بشکریہ جنگ – مہتاب حیدر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).