کشمیر: فردوس بروئے زمیں مگر خون میں لت پت


ایبٹ آباد کراس کرتے ہی جیسے ہی پل کوہالہ آتا ہے تو وادی کشمیر کی ٹھنڈی اور مست ہوائیں ہر آنے والے کا استقبال کرتی ہیں۔ بل کھاتے دریائے نیلم کا بہاؤ اور بلند و بالا پہاڑ مل کر ایسا سحر انگیز منظر بناتے ہیں کہ دیکھنے والی آنکھ دنگ رہ جاتی ہے۔ ہر موڑ پر حیرتوں کا ایک جہان ہے جو سیاح کا استقبال کرتا ہے۔ یہ جنت نظیر وادی اپنی خوبصورتی میں بے نظیر و بے مثال ہے۔ اسی لیے کسی شاعر نے اس کے بارے میں کہا تھا

اگر فردوس بروئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

وادی کشمیر اس وقت بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہے۔ وادی کا 43 % حصہ بھارت کے قبضے میں ہے جب کہ 37 % پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ بقیہ 20 % چین کے قبضے میں ہے۔ آزاد کشمیر کشمیر کا وہ حصہ ہے جو پاکستان کے زیر انتظام ایک آزاد ریاست ہے جب کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا بہیمانہ تسلط ہے جہاں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔

دکھ کی انتہا ہے کہ اس کشمیر کا ایک بہت بڑا حصہ پچھلے بہتر سال سے ظلم اور جبر کی چکی میں پس رہا ہے اور زمین کی جنت جہنم میں بدلی ہوئی ہے۔ ہر دن لاشیں اٹھنا معمول بن چکا ہے۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے کشمیریوں کی زندگیوں کو اجیرن کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے با وجود آج تک بھارت کشمیر میں رائے شماری پر راضی نہیں ہوا۔ پاکستان اور بھارت اس مسئلے پر تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں مگر مسئلہ جوں کا توں ہے۔

در حقیقت پاک بھارت تنازعات کی جڑ کشمیر ہے۔ 21 اپریل 1948 کو اقوام متحدہ نے ایک قرار داد منظور کی جس کی رو سے کشمیر کے الحاق کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق کیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے کشمیر میں رائے شماری ہو گی۔ مگر آج تک نہ تو یہ رائے شماری ہوئی نہ ہی کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دیا گیا۔ بلکہ ان پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ ڈھائے گئے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسی سے انداذہ لگا لیں کہ جموں کشمیر کی اسی لاکھ آبادی پر ساڑھے آٹھ لاکھ بھارتی فوج تعینات ہے جو بر سے کشمیریوں کو محکوم رکھنا چاہتی ہے۔

تحریک آزادی کشمیر کا جائزہ لیا جائے تو اس کا آغاز ڈوگرہ راج کے دور میں ہی ہوگیا تھا۔ تقسیم کے بعد بھارتی تسلط کے خالف بھی یہ تحریک جاری رہی۔ 1966 میں مقبول بٹ شہید نے نیشنل لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی جس نے تحریک میں ایک نئی روح پھونکی۔ مقبول بٹ کو 1984 میں انڈیا کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ 1989 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جموں کشمیر میں بھارتی تسلط کے خلاف تحریک کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس کا ہراول دستہ کشمیر کے نوجوان تھے۔

تب سے لے کر آج تک ہر آنے والا دن کشمیری حریت پسندوں کی جان و مال کی قربانیوں سے عبارت ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پچھلے 29 برس میں 94922 کشمیریوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔ 7 ہزار سے زائد گم نام قبروں کا انکشاف ہوا اور ایک لاکھ 43 ہزار افراد جیلوں میں ہیں۔ اب تک مساجد اور ہزاروں گھروں کو مسمار کیا گیا۔ سیکڑوں بستیوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔

2016 میں برہان مظفر وانی شہید کی شہادت نے تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ وانی کی شہادت کے دو سال بعد بھی وہ لاکھوں کشمیریوں کے لئے رول ماڈل بن رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں لوگ رحم دلی کے حوالے سے اس کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ وہ مقامی پولیس اہل کاروں اور مخبروں کی ہلاکت کی بھی مخالفت کرتا تھا۔ اس کے بعد سے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔ ان میں اچھے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے اسکالرز، پروفیسرسمیت تعلیم یافتہ نوجوان بھی ہیں جن کی فیملیز ان کی حمایت کرتی ہیں۔

تحریک آزادی کشمیر آج ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے اور کشمیریوں کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے وطن کو آزاد کرانا ہے تو اس کے لیے انہیں صرف جنگی نہیں بلکہ ہر محاذ پر ایک بھر پور جنگ لڑنا ہو گی۔ سفارتی، معاشی حتی کہ ہر ایک میدان میں جب تک بھارت کی بھر پور مخالفت نہ کی جائے تب تک کشمیر کو آزاد کرانا ایک خواب ہی رہے گا۔ بہت سے کشمیریوں نے اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہوئے کوششیں تیز کردی ہیں اور آج کشمیری دنیا کے تمام خطوں میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق تحریک آزادی کشمیر میں حصہ ڈال رہے ہیں جو کہ خوش آیند ہے۔

آج کشمیری نوجوان زندگی کے مختلف میدانوں میں اپنی مہارت کا لوہا منوا رہے ہیں اور تحریک آزادی کشمیر کو فنی و مالی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میں با قاعدگی سے سیمینارز منعقد ہو رہے ہیں جن میں مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری تحریک آزادی کے حق میں نعرے لگ رہے ہیں اور تحریک آزادی کو بھر پور مالی و اخلاقی مدد کی جا رہی ہے۔ جب سے تحریک نے اس قدر زور پکڑا ہے بھارت کے پسینے چھوٹ رہے ہیں اور وہ پوری دنیا میں سبکی کا سامنا کر رہا ہے۔ پوری دنیا کشمیر کے مقدمے کو بخوبی سمجھ رہی ہے اور بھارت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ کشمیر کو اس کا حق خود ارادیت دے اور کشمیریوں کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کرے۔

وہ کہتے ہیں آزادی کو ایک خواب ہی سمجھو
میں کہتا ہوں ہر خواب کی اک ہوتی ہے تعبیر

آج کشمیر کا بچہ بچہ آزادی کے جذبے سے سرشار ہے اور وادی کے چپے چپے سے آزادی کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں چاہے وہ مقبوضہ کشمیر ہو یا آزاد کشمیر۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے طلبا اس تحریک کا ہراول دستہ بن رہے ہیں اور جذبہ حریت اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ کشمیری بھائیوں کی تکلیف اور جذبہ حریت کو سمجھیں اور انہیں سفارتی، اخلاقی اور ہر طرح کی مدد فراہم کریں تا کہ وہ اپنی آزادی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں۔

قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور کوئی بھی جسم شہہ رگ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ جب تک پورا کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بنتا پاکستان کا وجود نا مکمل ہے۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ دنیا کے ہر فورم پر کشمیر کے لیے آواز اٹھائے اور بھارت کو مجبور کرے کہ وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دے اور کشمیری ایک ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).