نواز شریف کو دراصل کس بات کی سزا مل رہی ہے


کہا جاتا ہے کہ مرحوم جنرل ضیاءالحق کسی وجہ سے اس وقت بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام غلام قادر آف لسبیلہ سے خفا ہو گئے، اور وہ کسی بہانے جام صاحب کو اس منصب سے ہٹانا چاہتے تھے، کسی موقع پر ملاقات ہوئی تو جنرل نے جام غلام قادر سے کہا کہ ”جام صاحب آپ کے خلاف بہت سی شکایات مل رہی ہیں یا تو پھر ان کا ازالہ کیجیے یا پھر ہمیں کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا“

اس لب و لہجے سے جام غلام قادر کو اندازہ ہو گیا کہ جنرل کے کیا ارادے ہیں انھوں نے بڑی متانت لیکن گہری فطانت سے جواب دیا۔

”سر بے عیب ذات ایک تو اللہ کی ہے اور ایک آپ کی، باقی رہے ہم جیسے لوگ تو بندہ بشر ہیں کوئی نہ کوئی غلطی تو ہو ہی جاتی ہے۔ فرمایئے میں کس طرح ازالہ کروں تاکہ دوبارہ کوئی شکایت کا موقع پیدا نہ ہو“

اگر اس طرح کی نوکری میاں نواز شریف کرتا تو آج بھی وہ اقتدار میں ہوتا۔ میاں نواز شریف نے نوکری کرنے سے انکار کر دیا میاں نواز شریف کو سزا اس بات پر نہیں دی جا رہی کہ انھوں نے لوٹ مار کی۔ انھیں سزا اس کی دی جا رہی ہے کہ وہ سویلین بالادستی کی بات کرتا ہے۔ وہ ان لوگوں کو آئین اور قانون کے تحت سزا دینا چاہتا تھا جنھوں نے اس ملک کے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا۔

وہ طاقتیں جو سمجھتی ہیں کہ ہم اس ملک کے اصل حکمران ہیں ان کے سامنے میاں نواز شریف کا سینہ سپر ہو جانا اور انھیں یہ باور کروانا کہ نہیں آئینی طور پر آپ تو ہمیں جوابدہ ہیں۔ اس ملک میں حکمرانی عوام کی ہے، اپ انہیں جوابدہ ہیں جن کے ٹیکس کے پیسوں سے اپ بھاری بھرکم  تنخواہ لیتے ہیں۔ آگے سے جواب ملتا ہے کہ فوج نے ملک کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اس سے انکار نہیں، یہ آپ کے فرائض میں شامل ہیں اگر ملک کی سرحدوں کی حفاظت نہیں کرنی تھی تو آپ فوج میں بھرتی کیوں ہوئے تھے؟ عوام اپنا پیٹ کاٹ کر آپ کو ٹیکس اسی کام کے لیے دیتے ہیں۔ اس لیے نہیں دیتے کہ آپ عوام کی امنگوں کا خون کریں۔

خدا لگتی بات ہے کہ فی زمانہ پاکستان میں سویلین بالادستی کی جنگ لڑنے والا ایک ہی لیڈر باقی بچا اور وہ نواز شریف ہے، جن طاقتوں کا خیال تھا کہ میاں نواز شریف کے خلاف پہاڑ جیسے جھوٹے مقدمات بنا کر انھیں پابند سلاسل کیا جائے اور یہ جیل کی سختیاں برداشت نہیں کر سکے گا۔ ان سختیوں سے گبھرا کر دست تعاون بڑھا کر ہم سے رعایت لے کر ملک سے باہر چلا جائے گا وہ طاقتیں اب پریشان ہیں کہ میاں نواز شریف نے سویلین بالادستی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا، ان سختیوں اور تکلیفوں کا مقابلہ دلیری سے کر رہا ہے۔

دوسری طرف ان طاقتوں نے عمران خان کی صورت میں ایک مہرہ عوام پر مسلط کر دیا جو حکمرانی کے گُر سے ناآشنا ہے۔ کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جاؤں تو خود کشی کر لوں گا۔ ڈھٹائی کی انتہا دیکھے خود کشی تو دور کی بات ملک ہی آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا۔ مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ عوام کی چیخیں ساتویں آسمان تک جا رہی ہیں اور نااہل حکمران اپنی ہر تقریر میں این آر او نواز زرداری دور کے راگ الاپنا شروع ہو جاتا ہے، او بھائی قوم کو بتا کہ معشیت پر کیا پالیسیاں ہیں، صحت و تعلیم کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں، بے روزگاری کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا پالیسیاں ترتیب دی ہیں، اگر عمران خان کی تقریروں سے این آر او، نواز اور زرداری نکال دیا جائے تو باقی ان کے پاس کچھ نہیں بچتا۔

میاں نواز شریف ایک بار پھر جیل جانے کے لیے تیار ہے ”ووٹ کو عزت دو“ والے بیانیے سے رائی کے دانے کے برابر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، پریشان حال ہیں وہ قوتیں جن کا مقصود تھا کہ مقدمات میں پھنسا کر ان کے حوصلوں کو پاش پاش کیا جائے۔ یہ شخص تو ہمالیہ کے پہاڑوں سے بھی بلند حوصلوں کا مالک ثابت ہوا۔ میاں نواز شریف کا اپنے بیانیے پر ڈٹ جانا ہی پاکستانی قوم کی جیت ہے اور تاریخ انہی کو یاد رکھتی ہے جو سچ پر ڈٹ جاتے ہیں۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui