نواز شریف کا آپریشن کون کرے؟‎


خبر یہ ہے کہ پیس میکر ڈالنا تو دور کی بات, پاکستان کا کوئی ماہر، تجربہ کار ڈاکٹر نواز شریف کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں کہ کسی پیچیدگی کی وجہ سے اگر نواز شریف کو کچھ بھی ہو گیا تو وہ ڈاکٹر باقی زندگی کہاں گزارے گا۔ الزامات اور سازشی نظریات اس ڈاکٹر کا جینا مشکل کر دیں گے۔ سادہ سی بات ہے کہ نواز شریف کی سرجری کوئی ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کا نوجوان تو نہیں کرے گا۔ جس ڈاکٹر کا بھی انتخاب ہو گا وہ سینیئر ترین ہو گا، یعنی اس کی پریکٹس ٹھیک ٹھاک چلتی ہوگی، اس کا کوئی گھر بھی ہو گا، ممکن ہے اپنا ہسپتال بھی ہو۔ اب ایسا سینئر ڈاکٹر جس کے پاس گنوانے کے لئے ایسا جہان ہو جو ساری زندگی کی محنت کے بعد ملتا ہے، وہ نواز شریف کی سرجری کا رسک کیوں لے گا جس میں ناکامی کی صورت میں اس کی پریکٹس، گھر بار، کاروبار سب کچھ شدید نقصان کے خطرے میں آسکتا ہے۔ کوئی اس پر پیسے لے کر قتل کا الزام لگائے گا کوئی سیاسی اختلاف کا سبب قرار دے گا۔ کوئی دور سے کوڑی لائے گا کہ ڈاکٹر ہی در اصل غیر ملکی ایجنٹ تھا، ہمارا معاشرہ، لوگ اور یہاں پر پائے جانے والی عدم اعتماد کی صورتحال اپنی انتہاؤں کو پہنچی کھڑی ہے اور اس سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہ گرما گرمی کسی طور تھمنے کا نام نہیں لے رہی لہذا یہاں تو علاج کا باب بند ہی سمجھیں۔

نواز شریف اس وقت جو کر رہے ہیں اسے سمجھنے کے لئے چند باتیں یاد رکھنا ہوں گی۔ وہ اپنی عمر کا بڑا حصہ گزار چکے ہیں۔ انہیں شدت سے احساس محرومی ہے کہ وہ آخری وقت میں اپنی مرحومہ بیوی کے ساتھ نہیں تھے۔ ان کے بیٹے ملک سے باہر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب گنوانے کو ان کے پاس زیادہ کچھ نہیں البتہ جیل جا کر وہ سیاسی طور پر کمائی ہی کمائی کریں گے اور فرض کریں کہ جیل میں اگر ان کی طبیعت اچانک زیادہ بگڑ گئی تو اس کی ذمہ داری مکمل طور پر عمران خان حکومت پر جائے گی۔ ان کا خیال ہے کہ عمران حکومت کی کارکردگی سے قوم کا وہ حصہ جو ابھی تک صبر کئے بیٹھا ہے، بجٹ آنے کے بعد بلبلا اٹھے گا اور اکتوبر تک قوم گلا پھاڑ کر پرانا پاکستان یاد کر رہی ہو گی۔

ایسا ہوتا ہے یا نہیں، اس کا دارومدار، خود عمران حکومت کی کارکردگی پر ہے۔ آئیے دیکھیں وہ کن پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار، ان کی ساکھ پر بہت بھاری بوجھ ہیں مگر اپنی طبیعت کے ہاتھوں مجبور عمران خان، آخری حد تک بزدار کو بچائیں گے، یہ سیاسی فراست نہیں، جذباتی غصہ ہے۔ اسد عمر کا جانا ان کی جماعت کی سینئر لیڈرشپ لئے بہت بڑا دھچکہ ثابت ہوا ہے جس کے بعد کپتان کی حمایت کرتے ہوئے وزیر بھی اندر سے ہلے ہوئے ہیں جس کا اظہار اب مختلف بہانوں سے سامنے آتا جا رہا ہے۔ یہ جو ایک وزیر کی بحث دوسرے وزیر سے، ایک لیڈر کی اپنی ہی جماعت کے دوسرے لیڈر کے ساتھ عوامی سطح پر اختلاف کا اظہار آپ دیکھ رہے ہیں یہ بے چینی ہی نہیں عدم اعتماد کی گواہی ہے۔ اس کی دوسری مثال لاہور گورنر ہاؤس میں ہونے والا وہ ڈنر ہے جس میں گورنر سرور، نعیم الحق، صدر مملکت عارف علوی ایک جانب تھے اور ان کے مخالف دھڑے کے تحریکی لیڈر، ایم پی اے اور وزرا تھے جو لاہور میں ہوتے ہوئے بھی اس دعوت میں شریک نہیں ہوئے۔ اس دعوت سے ق لیگ بھی الگ تھلگ رہی چنانچہ، چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے پنجاب کابینہ کے دو وزرا بھی شریک نہ ہوئے۔

دوسری طرف مغربی دنیا ہم پر گھیرا تنگ کرتی جا رہی ہے، ان کے ہتھیار سب جانتے ہیں معاشی ہیں اور وہی استعمال ہو بھی رہے ہیں۔ عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ اہم ترین معاشی مناصب پر ان کے ہی تربیت یافتہ افراد بٹھا دئے گئے ہیں۔

بھارتی انتخابات کے نتیجے میں خان صاحب کی خواہش کے مطابق اگر مودی کی واپسی ہو گئی جس کا امکان بڑھتا چلا جا رہا ہے تو پھر خطرہ ہے کہ ہائی الرٹ کی پوزیشن آگے جائے گی، یہ اگر ایک سال تک طویل ہو گیا تو دفاعی اخراجات کا اضافی خرچ ہمارا بھرکس نکال دے گا۔

چین کی جانب سے بھی ٹھنڈی ہوائیں بند ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اب ان کے سفارت کار کھلے عام ٹوئٹر پر پاکستان کی حکومت کی پالیسیوں پر نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں، ان کا سفیر لاہور چیمبر آف کامرس میں کھلی تنقید کر کے جا چکا۔ میں گھبرانے کی بات نہیں کر رہا، محض بے چینی کی طرف توجہ دلا رہا ہوں اور عرض کرتا ہوں آئی ایم ایف کی وہ سابق ٹیم جو اب ہمارے اہم ترین معاشی مناصب سنبھال چکی ہے، کی موجودگی میں اب سی پیک کے منصوبے کتنی رفتار سے آگے بڑھیں گے، اس پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔

کراچی میں رینجرز کی موجودگی اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ وہاں کے حالات سول حکومت اور پولیس کے بس کی بات نہیں، ہم اس کے بے شک عادی ہو چکے ہوں مگر یہ نارمل بات نہیں ہے۔ سندھ حکومت کے وزیر سعید غنی ریکارڈ پر آ کر کہتے ہیں کہ پولیس ہماری سنتی ہی نہیں۔ اس صورت کو آخر کس طرح نارمل مانا جائے۔

پی ٹی ایم کے بارے سازشی نظریات اتنے زیادہ ہیں کہ سچ کا جاننا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے پیر کو پاک افواج کے ترجمان نے اس تنظیم کو وارننگ دی، محض دو دن بعد آرمی چیف پشاور میں کچھ مختلف بات کرتے دکھائی دیے۔ صحیح غلط کو ایک طرف رکھیں تو کم ازکم یہ تو ثابت ہے کہ اب یہ تنظیم پاک افواج کی گہری دلچسپی کا موضوع بن چکی۔

آصف زرداری عید سے قبل شاید جیل میں ہوں، اس کے نتیجے میں بلاول بھٹو، جو چند روز سے فرنٹ لائن پر لڑتے دکھائی دے رہے ہیں، گرما گرمی کو مزید آگے بڑھائیں گے۔ ان کے پی ٹی ایم سے رابطے اب کوئی راز نہیں۔

بلوچستان میں دہشت گردی کو ابھی تک سلامتی کے ذمہ دار اداروں نے بڑی محنت اور قربانیوں سے کنٹرول تو کیا ہوا ہے مگر یہ کنٹرول تب تک عارضی ہے جب تک وہاں دہشت گردی کی وجوہ موجود ہیں۔ کنٹرول جب بھی ہلکا ہو گا، خطرہ ہے کہ پھر امن کی صورت بگڑ جائے گی۔

مولانا فضل الرحمن کا مذاق اڑانے میں کوئی ہرج نہیں مگر ان کے مدارس میں پڑھنے والوں اور ان کی جماعت کے اراکین کے لئے ان کی حیثیت ویسی ہی ہے جیسی جذباتی، مذہبی سیاسی اراکین کی ہوا کرتی ہے۔ یہ لوگ اگر سڑکوں پر آ جائیں تو پھر یہ محض سیاسی نہیں، اپنے طور پر ایک طرح سے ایمان کی جنگ لڑتے ہیں۔ یا دوسرے الفاظ میں جہاد۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے کارکنوں کی ہے لیکن یہ مولانا کی جماعت سے عددی اعتبار سے چھوٹی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا جیسا گہرا سیاست دان بھی سیدھی باتیں کر رہا ہے۔ اگر یہ لب و لہجہ کسی اور کا ہوتا تو ابھی تک اسے سبق مل چکا ہوتا جس کی مثال مولانا خادم رضوی ہے۔ دوبارہ عرض کر دوں کہ خادم رضوی کے نعرے میں ان کے کارکنوں کے لئے طاقت تو بہت ہے مگر مولانا فضل الرحمان کے کارکنوں کا مقابلہ خادم رضوی سے نہیں کیا جا سکتا۔

یہ ہیں وہ حالات جن کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور کپتان عمران خان سوہاوہ میں القادر یونیورسٹی کا افتتاح کرتے ہوئے روحانیت کو سپر سائنس کا درجہ دے کر ہمیں سنا رہے ہیں کہ ملکوں کو فوج نہیں بلکہ قوم اکٹھا رکھتی ہے۔

کیا وجہ بنی کہ صدر مملکت عمران خان کے روزوشب پر اتنا پریشان ہوئے کہ انٹرویو دیتے ہوے انہوں نے فکر مندی کا اظہار ضروری سمجھا۔ جس کے بعد اطلاعات کے مشیروں کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں کہ وہ ثابت کریں کہ وزیر اعظم بہت ہشاش بشاش رہتے ہیں۔

سب اچھا نہیں۔ آگے بھی کم از کم معاشی میدان میں کوئی فوری ریلیف نہیں۔ معاشرے کی ہر طبقے میں پھیلتی یہ فکر مندی کب تک کنٹرول میں رہے گی، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ سیاست کو اٹھا کر ایک طرف رکھیں، بطور پاکستانی ہمیں جن مشکلات کا سامنا ہے ان سے ہم ایک ہو کر ہی لڑ سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں نقصان ہم سب کا ہوگا، بچے گا کوئی بھی نہیں۔ پارلیمنٹ کا اجلاس کل پھر سے شروع ہے، خوشی کی خبر ہے کہ عمران خان آخر کار اس اجلاس میں شریک ہوں گے۔ اس دعا کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں کہ کاش اس اجلاس میں، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں ہی نہ ہوں بلکہ حالات کے بھنور سے نکلنے کا کوئی سنجیدہ پلان شروع ہونے پر کم از کم بات تو شروع ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).