مسلم لیگ (ن): تنظیم نو یا عہد نو؟


قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی نشستیں 88 ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں اس جماعت کی نمائندگی تقریبا حکومتی تعداد کے برابر ہے۔ اس کے باوجود دونوں ایوانوں میں پچھلے آٹھ ماہ سے وہ اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں ناکام رہی ہے۔ پنجاب میں حکومتی اتحاد یک طرفہ ایوان چلانے میں نہ صرف کامیاب ہے بلکہ اسے کوئی پریشانی یا روک ٹوک نہیں۔ قومی اسمبلی میں لیکن پیپلز پارٹی اور اس کے جواں سال رہنما بلاول بھٹو زرداری حکومت کی ناک میں دم کیے بیٹھے ہیں۔

بلاول کے برجستہ فقروں اور کاٹ دار جملوں کے پیچھے خواہ کسی کا بھی قلم ہو اور مقصد کچھ بھی ہو، حکومت کو بہرحال سبکی ضرور ہو رہی ہے۔ مہنگائی سے لے کر انتظامی نا اہلی ہر کمزور پہلو پر وہ گرفت کر رہے ہیں، اور مسلسل شعلہ بیانی سے حکمراں جماعت کو نشانہ بنائے بیٹھے ہیں۔ بلکہ اب وہ اکثر طنزیہ انداز ان قوتوں سے بھی جنہیں اس تبدیلی کا پشتیباں سمجھا جا رہا ہے، حکومتی کارکردگی سے متعلق سوال کرتے ہیں۔ اسی باعث اسٹیلبشمنٹ مخالف نقطہ نظر رکھنے والے طبقہ میں ان کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔

لازمی ہے، جو جتنا بولے گا میڈیا پر اس کا چرچا بھی اتنا ہی ہو گا۔ ٹاک شوز اور اخباری کالموں میں بھی زیادہ وقت ان کے بیانات پر تبصرہ ہوتا ہے۔ حکومتی پالیسی سے نالاں اور مہنگائی کے ستائے عوام بھی مسلم لیگ ن کی خاموشی کے سبب پیپلز پارٹی کو اپوزیشن اور بلاول بھٹو کو حقیقی اپوزیشن لیڈر کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

اس صورتحال سے مسلم لیگ ن کے حمایتی خاص طور پر اس کے نوجواں سپورٹرز بہت پریشاں تھے۔ اپنی نا اہلی کے بعد میاں نواز شریف کی جانب سے چلائی جانے والی ووٹ کو عزت دو تحریک کے بعد لوگوں کو توقع تھی شاید اس بار عوامی بالادستی کا مطالبہ واقعتا کسی منطقی انجام سے ہمکنار ہو۔ لیکن قید کی سزا کاٹنے والے نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز ضمانت پر رہا ہونے کے بعد پراسرار خاموشی اختیار کر کے بیٹھ گئے۔ اس خاموشی کو مخالفین کی جانب سے ڈھیل یا این آر او کے حصول کی خواہش کہا گیا۔

جیل جانے سے قبل اور لندن سے اڈیالہ کی طرف آتے ہوئے آخر وقت تک دونوں باپ بیٹی جارحانہ بیانات دے رہے تھے اور بہت زیادہ فرنٹ فٹ پر کھیل رہے تھے۔ جونہی مگر انہیں ہائیکورٹ کی طرف سے ضمانت پر رہائی حاصل ہوئی خلاف توقع انہوں نے لب سی لیے۔ یہاں تک کہ مریم نواز کا ٹوئٹر اکاؤنٹ اور سوشل میڈیا سیل بھی غیر فعال ہو گیا، جو مسلم لیگ ن کی بہت سی مشکلات کا اصل سبب تھا۔ انتخابات سے قبل جماعت کے اندر بھی بہت سے لوگوں نے مریم نواز کو جارحانہ حکمت عملی سے روکنے کی کوشش بھی کی مگر وہ اپنے ارادے پر ڈٹی رہیں۔

اپنے بیانات کے سبب نہ صرف وہ جیل گئیں بلکہ ان کی جماعت مسلم لیگ بھی انتخابی معرکے میں بری طرح پٹی۔ ضمانت پر رہائی ملنے کے بعد وہ اچانک کیوں خاموش ہوئیں؟ کسی کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ جارحانہ پن سے اچانک دفاعی موڈ میں آنے کی وجہ کیا ہے۔ درویش نے یہ جاننے کے لیے لیگی قیادت سے انتہائی قریبی روابط رکھنے والے ایک سینیٹر سے دو تین بار رابطہ کیا مگر وہ بھی اس متعلق لاعلم نکلے۔

اگرچہ میڈیا اور عوام کے روبرو یہی کہا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ کا بیانیہ وہی ہے جو میاں نواز شریف کا ہے اور اس میں کسی قسم کی تقسیم موجود نہیں۔ تاہم جاننے والے جانتے ہیں کہ خود شریف برادران کے نظریات میں بعد المشرقین ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں شہباز شریف نے آخر وقت تک اپنے بڑے بھائی سے بغاوت نہیں کی حالانکہ انہیں اس کے لیے بہت سے لالچ بھی ملے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی سوچ اپنے برادر بزرگ سے مختلف ہی رہی۔

وہ عملا عافیت پسند شخص ہیں اور ان کی ترجیح یہی ہے کہ کونے میں دبک کر دہی کھاتے رہیں۔ اپوزیشن دور کی صعوبتیں ان کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ تمام دنیا اس بات سے واقف ہے۔ شریف خاندان کا مگر المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی ہاتھ میں اختیار جانے پر راضی نہیں ہوتے۔ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ اپنی قیادت کے اس رویے پر نجی محفلوں میں نالاں رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایسے ہی ایک رہنما سے راقم کی بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا، ”شاہد خاقان عباسی نے اپنی وزارت عظمی کے دور میں دباؤ کا بے مثال مقابلہ کیا اور قیادت سے لا زوال وفاداری دکھائی۔ لیکن انتخابات کے بعد عہدوں کی بانٹ کا مرحلہ آیا تو میاں صاحب نے مرکز اور پنجاب میں اہم عہدے اپنے بھائی کی فیملی میں بانٹ دیے، یہ جانتے ہوئے اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا ان کے بس کی بات نہیں“۔

پنجاب میں بلدیاتی بل کی منظوری کا معاملہ ہو یا مرکز میں ضمنی بجٹ کی منظوری۔ دونوں جگہ اپوزیشن لیڈران دکھائی نہیں دیے۔ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کی افادیت کی کسے خبر نہیں۔ اس کے اجلاس بھی شہباز شریف صاحب اس وقت تک طلب کرتے رہے، جب تک خود انہیں پروڈکشن آرڈرز کی ضرورت رہی۔ ضمانت ملتے ہی ایسے لندن بیٹھے کہ پلٹ کر کسی معاملے کی خبر تک نہ لی۔ اس رویے سے میاں صاحب کے بیانیے کو نقصان کے ساتھ جماعت میں سراسیمگی اور بد دلی بھی کھل کر سامنے آنے لگی۔

بعد از خرابی بسیار تنظیم نو کے نام پر اب لندن سے ہی شہباز شریف نے پی اے سی کی چیئرمین شپ چھوڑنے کے ساتھ جماعتی سطح پر بھی اکھاڑ پچھاڑ کی ہے۔ اس تنظیم نو کی بھی مگر وہی حیثیت ہے جو اندھے شخص کی بانٹی ریوڑیوں کی ہوا کرتی ہے۔ ایک عہدے پر پندرہ افراد نامزد ہیں، صاف ظاہر ہے متنفر افراد کو خوش کرنے اور اپنی جان چھڑانے کے لیے یہ بندوبست کیا ہے۔

جِی ٹی روڈ یاترا کے بعد پارٹی ورکز اور عوام نے میاں صاحب کی بھرپور حمایت کی۔ غریب لوگ اپنے روزگار کا ناغہ کر کے ان کے جلسوں میں شرکت کرتے رہے، کئی صحافی ان کے بیانیے کے چکر میں ملازمتوں سے فراغت کا صدمہ لے بیٹھے، کارکنوں نے دھمکیاں، سختیاں اور گالیاں برداشت کیں۔ بدلے میں کیا ملا؟ سعد رفیق اور جاوید لطیف سے متعلق خبریں شاید درست ہوں کہ وہ سمجھتے ہیں قیادت کارکنوں کو مشکل میں چھوڑ کر پھر نکلنا چاہتی ہے۔

مشاہد اللہ، پرویز رشید اور طارق فاطمی جیسے لوگوں کو دوبارہ عہدے اگر سپورٹرز کا اعتماد بحال رکھنے کے لیے دیے ہیں کہ لیگی قیادت اب واقعتا عوامی بالادستی کے عزم پر قائم ہے۔ تو پھر میاں صاحب کی ضمانت پر اصرار کی آخر کیا وجہ ہے؟ ڈیڑھ ماہ کی ضمانت میں کیا علاج ہوا۔ اس دورانیے میں جو طبی ٹیسٹ ہوئے، کیا وہ جیل میں نہیں ہو سکتے تھے۔ جیل کوئی کالے پانی کی سزا تو نہیں ہے جس سے فرار کے لیے اتنی جگ ہنسائی کرائی۔

بہی خواہوں اور چاہنے والوں کو مخالفین کے روبرو رسوا کیا۔ قیادت پھولوں کی سیج سے نہیں، خاردار اور سنگلاخ رہگزر پر چل کر ملتی ہے۔ سہل پسند کو فرہاد ہونے کے دعوے کی کیا ضرورت ہے۔ جماعت میں اکھاڑ پچھاڑ اگر عہد نو ہے تو فبہا ورنہ کسی کو طویل عرصہ بیوقوف بنانا ممکن نہیں رہا۔ جو عوام کو اپنی ذات پر مقدم رکھے گا، وہی پذیرائی کا حقدار ہو گا۔ جو عوام کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گا، عوام بھی اسے مسترد کر دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).