امیر محمد نے یورپ میں کیا دیکھا؟


ہمارے دوست، محترم امیر محمد نام کی طرح دل کے بھی امیر ہے۔ انہوں نے ہمارے علاقے میٹروول سائٹ ایریا میں ”دانش کدہ“ نامی کتابوں کی چھوٹی سی بستی بھی قائم کر رکھی ہے۔ ۔ یہ کتاب دوست شخصیت، کتابوں سے محبت کرنے والے انسان ہے۔ تاریخ کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں۔ کئی ممالک کے سفر کرچکے ہیں۔ دوسال میں انہوں نے 10 سے زائد ممالک کا سفر کیا ہے۔

جن میں ترکی، جرمنی، اٹلی، سنگاپور، روم آسٹریلیا اور انگلینڈ شامل ہیں۔ کچھ دن پہلے یہ یہ یورپ کے چند ممالک کے سفر سے لوٹے تو ہم نے لائبریری میں ان کے ساتھ محفل سجائی۔

انکا شمار کراچی کے بڑے تاجروں میں ہوتا ہے۔ ان کے آباءواجداد افغانستان کے بڑے تاجروں میں سے تھے جو تقسیم ہند سے پہلے ہجرت کر کے تجارت کے سلسلے میں پاکستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

انہوں نے اپنی یادداشت کے سہارے ہمیں کچھ دیر کے لیے ان ممالک کا سفر کرایا۔ یہ جتنے زندہ دل ہے، اتنا ہی قوی مشاہدہ بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے سفر میں ان ممالک کی تاریخ، کلچر، ثقافت، رہن سہن، تعلیمی و حکومتی نظام سے لے کر وہاں کے لوگوں کے رویوں کا خوب مشاہدہ کیا ہے۔ وہاں کے مزدور، دکاندار سے لے کر استاد، پادری جن جن تک رسائی ملی۔ ان سے ملے۔ سوال جواب کیے وہاں کی گزرنے والی زندگی کے اوراق کو پلٹنے کی کوشش کی۔ معلومات کا خزانے کو دماغ کے خانے میں محفوظ کرتے چلے گئے۔ تاریخی اہمیت کی حامل عمارات کا دورہ کیا۔ وہاں کی تاریخ کو خوب ٹٹولا ہے۔

بقول ان کے دنیا بھر میں سب سے زیادہ ترکی اور جرمنی کے لوگوں کو زندہ دل پایا۔ وہاں کے لوگ زندگی کو ایسے جی رہے ہیں جیسے دل کو چھو جانے والے گیت کی آواز میں انسان جھوم رہا ہو۔ جیسے سہانے موسم میں درخت اور پتے اور ٹہنیاں رقص کر رہے ہوتے ہیں۔ وہاں پر موجود ہر شخص کا چہرہ خوشی سے چمکتا دمکتا دکھتا ہے۔ جس سے بھی ملے اس کے لبوں کی خوبصورت مسکان آپ کا استقبال کرے گی۔ کیا جوان، نوجوان، مرد عورت ہر شخص کو زندگی گزارتے کم اور جیتے زیادہ پائے گے۔ حسن کی دیوی یورپ کی سرزمین کے ساتھ ساتھ انسانوں پر بھی مہربان ہے۔

جرمنی کو معاشی لحاظ سے یورپ کا دل کہا جاتا ہے۔ جرمنی کی کرنسی یورو ہے۔ وہاں زیادہ بولے جانے والی زبانیں فرینچ اور جرمن ہے۔ جرمنی دنیا کی دسویں بڑی زبان ہے۔ یورو کی کرنسی پورے یورپ میں مقبول ہے۔

استنبول یورپ کے سنگم پر واقع ہے۔ یہاں آپ کو یورپ کا مکمل ماحول دکھائی دے گا۔ یہاں دنیا بھر اور خصوصاً یورپ سے سیاحوں کی آمدورفت زیادہ ملے گی۔ یہاں چہل پہل زیادہ ہے۔ لوگ اپنی دھن میں مست زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ استنبول تاریخی لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ استنبول دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ جہاں سیاحوں کا ریلا اپنی آنکھوں کو یہاں کی خوبصورتی سے خیرا کرنے کے لیے جوق در جوق کھینچے چلے آتے ہیں۔

۔ یہ تمام ممالک خط استوا سے دور ہے، البتہ سنگاپور خط استوا پر ہے۔ وہاں 12 گھنٹے دن اور 12 گھنٹے کی رات ہوتی ہے۔ وہ اپنے کام میں دن و رات اور موسم کو کو آڑے نہیں آنے دیتے۔ وہاں رات بھی دن جیسے چمکتی گزرتی ہے۔ وہاں لوگ دن سے زیادہ رات کی روشنی میں زیادہ پر لطف زندگی گزارتے دکھے۔ وہاں کا عام درجہ حرارت موسم گرما میں ہمارے اے سی روم کے درجہ حرارت سے مشابہت رکھتا ہے۔ یعنی 18 یا 20 سے زیادہ نہیں رہتا۔

اے سی اور پنکھا کا تصور ہی نہیں۔ موسم سرما میں وہاں کا ٹمپریچر منفی بچیس یا اٹھائیس ملے گا۔ اس کے باوجود آپ کو عبادت گاہوں، دفاتر، بازاروں جگہ جگہ پر سردی کو کم کرنے کے لیے حرارت کا انتظام موجود ہوتا ہے۔ ہیٹرز کو چلانے کے لیے ایل۔ پی۔ جی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ 200 کلو گرام کے بڑے سیلنڈر گھر سے باہر کچھ فاصلے پر رکھے جاتے ہیں تاکہ حادثے کی صورت میں کوئی جانی نقصان نہ ہو۔ وہاں حادثات سے بچنے کے لیے اتنے زبردست انتظامات کیے جاتے ہیں کہ وہاں حادثہ ہونا اتنا مشکل ہے جتنا یہاں حادثے سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔

جرمنی میں امیگریشن حکام کا رویہ قابل دید تھا۔ انہوں نے جرمنی کا بتایا کہ وہاں کوئی شخص چار لاکھ یو ایس ڈالر کی انویسمنٹ کردے تو وہاں کی شہریت با آسانی حاصل کرسکتا ہے۔

امیگریشن سے متعلق انہوں نے وہاں کی دلچسپ بات یہ بتائی کہ وہاں امیگریشن بے حد آسان ہے۔ یہ وہاں قومی لباس، داڑھی سر پر افغانی ٹوپی کے ساتھ یورپ کی سرزمین پر اترے۔ امیگریشن کے لیے خاتون نے لبوں سے بھری مسکراہٹ اور نرم لہجے میں ہیلو کیا۔ اس کے بعد ان سے دو ہی سوالات کیے گئے۔ یہاں آنے کا مقصد؟ یہاں کب تک ہوگے؟ اس کے جوابات لینے کے بعد ایک مہر ان کے پاسپورٹ پر ثبت کردی گئی۔ اور ویلکم ٹو جرمنی کے جملوں سے انہیں خوش آمدید کہا گیا۔ یعنی ان کے لباس اور وضع قطع سے کوئی ان کے ساتھ مختلف رویہ نہیں اپنایا گیا۔

اسکی نسبت ان کا کہنا ہے کہ جب وہ پاکستانی سر زمین پر قدم رکھا تو امیگریشن ڈپارٹمنٹ کے عملے نے ایک پرچہ پکڑا دیا۔ جس پر درج تھا جن جن ممالک کا سفر کیا ان ممالک کا نام وہاں کی رہائش کا پتہ اور دورانیہ پاکستان واپسی پر گھر کا پتہ، آپ کو لاحق بیماریاں وغیرہ سے متعلق پوچھا گیا تھا. انہوں نے اس پرچے پر پتہ کچھ یوں تحریر کیا۔ ای۔ 84 بلاک 77 گلشن معمار نزد چاکی واڑہ، لیاری لاہور سمن آباد۔ ہوائی اڈے پر موجود عملہ لوگوں سے اس رسید کو لے کر ایک خانے میں بغیر دیکھے ڈالے جارہا تھا۔

جرمنی کے شہر ہمبرگ میں 150 مساجد ساڑھے چھے لاکھ افغانی رہائش پذیر ہیں۔ جرمنی و یورپ کے دوسرے ممالک سے متعلق ان کا کہنا تھا وہاں کے لوگ لفظ جھوٹ نام سے بالکل ناواقف ہیں۔ وہاں انسانوں سے متعلق یہ تصور اور ایمان ہے کہ انسان جھوٹ نہیں بول سکتا۔ انسانیت کا سب سے زیادہ احترام اور قدر دیکھی۔ انسان سے محبت اور اس کی قدر بہت دیکھی گئی۔

پورپ کا اگر سفر کرنا ہو تو آپ تین جگہوں کا دورہ ضرور کریں۔ استنبول، روم اور یونان یہ تین جگہیں تاریخی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہیں۔ انہوں استنبول میں ہاگیا صوفیا کے مقام کا بھی دورہ کیا۔ اس جگہ ہے جہاں مسلمانوں کی عبادت گاہ مسجد اور عیسائیوں کا چرچ دونوں ایک ہی مقام پر ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر ہیں۔

یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے غلام کے ہمراہ پہنچے تھے۔ در و دیوار پر حضرت عیسی علیہ السلام کی شبیہ بھی نقش ہے۔ یہ مقام دنیا بھر میں تاریخی مقامات میں دسویں نمبر پر ہے۔ ترکی کے رہنما کمال اتا ترک نے مسجد اور چرچ دونوں کی عبادت گاہوں کی حیثیت ختم کرکے انہیں عجائب گھر کی حیثیت میں تبدیل کردیا ہے۔ حالیہ ترکی کے انتخابات میں ترکی کے صدر طیب اردگان نے یہ اعلان کیا تھا کہ میں اگر جیتا تو ہاگیا صوفیا کی میں موجود تاریخی مسجد کی حیثیت کو بحال کرو گا۔

آپ شاید کتابوں سے اتنا تاریخ کو پڑھ اور پرکھ نہیں سکتے جتنا آپ ان مقامات کا دورہ کر کے سیکھتے ہیں۔ جب آپ وہاں جاکر ان جگہوں کو بنفس نفیس اپنی آنکھوں سے براہ راست دیکھتے ہیں تو آپ تاریخ کے ان ادوار میں خود کو ڈھلتے محسوس کرتے ہیں۔

سوال کیا گیا اگر پورے یورپ کا کوئی ملک دارالخلافہ ہوتا تو وہ کون سا ملک ہوتا؟ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ روم اس کا دارالخلافہ ہوتا۔ جس پر اتفاق رائے آسانی سے ہوتا، روم عیسائیوں کا مکہ بھی کہلاتا ہے۔ ویٹیکن شہر کا بھی انہوں نے دورہ کیا۔ وہاں کی اپنی پولیس اپنا نظام موجود ہے۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی آپ خود کو نئی دنیا میں پائے گے۔

وہاں کے تعلیمی نظام سے متعلق انہوں نے دلچسپ بات بتائی۔ وہاں 3 سال تک بچہ والدین کے ہمراہ پرورش پاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی تعلیم و تربیت کے سارے انتظامات ریاست کرتی ہے۔ ریاست اسے لے جاکر قریبی اسکول میں داخل کرتی ہے روز ٹرانسپورٹ سے لے کر یونیفارم، کتابیں و دیگر اخراجات کی ذمہ داری ریاست اٹھاتی ہے۔ اگلے تین سال تک اس بچے کو کوئی کتاب نہیں پڑھائی جاتی بلکہ صرف اس کی تربیت کی جاتی ہے۔ اسے نشست و برخاست اور زندگی گزارنے کا طریقہ و سلیقہ سکھایا جاتا ہے۔

اس کے بعد اسے تعلیم دی جاتی ہے۔ تعلیم پر خطیر رقم خرچ کرنے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ملاقات دوران سفر ایک ٹیچر سے ہوئی۔ وہ تیس بچوں کو تعلیمی دورے پر لے کر جا رہی تھی۔ ہمبرگ شہر کی ساحلی پٹی پر سائنس سے متعلق بارہ روزہ دورہ تھا۔ آنے جانے، کھانے پینے اور رہائش کے تمام تر انتظامات حکومت کی جانب سے کیے گئے تھے۔ کوئی کوچنگ و ٹیوشن سینٹر کا تصور نہیں۔ کوئی نجی تعلیمی ادارے بھی نہیں۔

تعلیمی نظام مکمل طور پر حکومتی اختیار میں ہے۔ مکمل تعلیمی نظام یکساں اور ایک جیسا ہے۔ جرمنی میں تعلیمی اداروں جرمنی اور فرینچ دونوں زبانوں کو سکھانے کے لئے خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ایک ہی کلاس میں آپ کو افریقن، یورپین، ایشین اور جاپانی نسل کے لوگ ملے گے۔ مثلاً کوئی پاکستان تو کوئی شام تو کوئی افغانستان سے ہجرت کرکے وہاں آکر رہائش پذیر ہوگیا ہے۔ مختلف خطوں اور مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ہی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ جو کہ حیران کن اور دلچسپ بھی ہے۔

انہوں نے جرمنی کی لوکل گورنمنٹ کے آفس کا دورہ بھی کیا۔ جسے آلسٹر کہا جاتا ہے۔ یہ اس آفس میں پاکستانی کے قومی لباس اور ٹوپی سمیت اندر گئے۔ انہیں کسی نے روکا بھی نہیں۔ اندر داخل ہوکر انہوں نے اس آفس میں ہونے والے اجلاس سے متعلق معلومات لی۔ تصاویر بنائی۔ یہاں تک کہ انہوں نے اجلاس میں جانے کی اجازت بھی مانگی جس پر وہاں کے عملے کی ایک افسر نے کہا۔ آپ اتوار کو تشریف لائیے۔ مکمل عمارت کا دورہ کرایا جائے گا۔

انہوں نے جواب میں کہا جمعے تک میری فلائٹ ہے۔ جس پر جواب میں اس افسر خاتون نے دکھ کا اظہار کیا۔ ان سے معذرت کی۔ انہیں اگلی بار آنے کی دعوت دی ساتھ وعدہ بھی لیا کہ آپ اگلی بار آئے تو اتوار کو تشریف ضرور لائیے گا۔ انہوں نے دلچسپ بات یہ بتائی کہ امریکہ اور انگلینڈ کے علاوہ پورے یورپ میں لباس اور چہرے پر آپ کے ساتھ مختلف رویہ نہیں اختیار کیا جاتا۔ بلکہ آپ کو زیادہ احترام سے نوازا جاتا ہے۔

یورپ میں اگر خاندانی نظام کی بات کی جائے تو یہ تباہ ہوچکا ہے۔ وہاں ہاؤس وائف کا تصور پورے یورپ میں کہیں نہیں۔ آپ کو پورے یورپ میں سو گز سے بڑا گھر نہیں ملے گا۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے اس پر کوئی پابندی نہیں۔ اس کی وجہ خاندانی نظام ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے وہاں تحفظات یقینی طور پر بہتر ہے۔ مگر اولاد سے متعلق قانون قابل اعتراض ہے۔ مثلاً اولاد جب چاہے جس سے جیسا تعلق رکھے جو چاہے کرسکتی ہے۔ والدین اولاد کو روک ٹوک نہیں سکتے۔ یہاں تک کہ سر زنش بھی نہیں کرسکتے۔

شخصی آزادی کا تصور اور قانون پر وہاں سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ وہاں جو چیز منفی دیکھنے کو ملی وہ ہے ہم جنسی پرستی کی کھلی آزادی اور آپ کے ایمان کی سلامتی کا نہ ہونا ہے۔ آپ کا ایمان وہاں محفوظ نہیں۔ قانون نظام ایسا ہے کہ جو مشرقی معاشرے کے رہنے والے شخص کا ایمان خطرے میں ڈالتا ہے۔ یورپ میں دو مذاہب مجموعی طور پر غالب ہے۔ ایک کیتھولک اور دوسرا پروٹسٹنٹ ہے۔ کیتھولک قدیم روایات جبکہ پروٹسٹنٹ جدیدیت پر مبنی ہے۔ دونوں کا مرکز روم ہی ہے۔ عبادت گاہیں یعنی چرچ ان کے الگ الگ ہے۔

یورپ کی ترقی اور انسانی سہولیات و آسائش کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم خود کو ترقی پذیر بنانا جاتے ہیں تو ان کی تقلید کرنی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).