کوئٹہ حملہ اور شناخت کا شدید بحران


\"mujahidکوئٹہ خودکش حملہ کے بارے میں ابھی تک لاتعداد اندازے اور امکانات ہمارے سامنے آ چکے ہیں جب کہ حتمی کچھ بھی نہیں اور نہ ہی ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ایسے ٹھوس شواہد سامنے لائے گئے ہیں جن کی بنیاد پر کوئی مناسب رائے اختیار کی جا سکے۔ ذمہ داری قبول کرنے والے گروہوں کے علاوہ صوبائی وزیرداخلہ اور کئی قومی سیاستدانوں کی نشاندہی کے مطابق اس حملے میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را ‘ملوث ہے، جو کشمیر میں جاری شورش سے نہ صرف توجہ ہٹانا چاہتی ہے بلکہ پاکستان سے بدلہ بھی لینا چاہتی ہے۔ ماضی میں دہشت گردی کے تقریباً تمام بڑے واقعات اور سانحات کے بعد اس طرح کی ’ماہرانہ‘ رائے ہمارے قومی مقدر کا حصہ بن چکی ہے، جس سے انحراف بذات خود نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ بھارتی خفیہ ادارہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار ہے تو بھی ہم نااہل ہیں اور نشاندہی کے بعد تدارک میں کوتاہی کے اصل ذمہ دار ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے ہم گذشتہ دو دہائیوں سے ’شناخت‘ کے بحران کا شکار ہیں۔ انیس سو چھیانوے میں جب کابل میں طالبان کا قبضہ ہورہا تھا تو ساتھ ہی ہمارے ہاں شناخت کے بحران کا سیلاب در آیا۔ ہوا میں تیر چلائے جانے لگے اور سب سے پہلا اندھا تیر ہمارے جہادی جرنیل حمید گل مرحوم کی طرف سے مارا گیا۔ مرحوم چوں کہ افغان جہاد میں تاریخی فتح مندی کے تقریباً تمام اعزازات اپنے سینے پر سجا چکے تھے اس لیے قومی ذرائع ابلاغ پر اِن کا کہا ہوا مستند مانا جاتا تھا۔ اِنہی دنوں اُنہوں نے اعلان کیا کہ طالبان امریکی سازش کا شاخسانہ ہیں اور افغان جہاد میں فتح کے بعد اس کے ثمرات اور برکتیں خود امریکہ سمیٹنا چاہتا ہے اس لیے اس نے طالبان نامی گروہ تیار کیا ہے۔ ہفت روزہ تکبیر نے جنرل صاحب کا ایک طویل انٹرویو شائع کیا جس میں اُنہوں نے وہ امکانات بھی بتا دئیے جو امریکہ کے ہاتھوں طالبان کی پیدائش کا باعث بنے۔ جنرل صاحب کے تمام اندازے مکمل طور پر غلط ثابت ہوئے لیکن اپنی موت تک اُنہوں نے اپنی غلطی تسلیم نہ کی اور روزانہ امریکہ اور یورپ کے سر پر جوتے برساتے رہے۔ دوسری طرف طالبان کے ہاتھوں ہمارا کباڑا ہوتا رہا۔ کوئی اِنہیں’ہمارے بچے‘ قرار دیتا رہا، کسی نے اِن کے ہاتھوں اسلام کا حقیقی بول بالا ہونے کا خواب دیکھا، کہیں اِن کے بارے میں یہ گمان غالب رہا کہ اب بھارت کی خیر نہیں اور یہ اسلامی جنگجو نہ صرف ہندو بنیے کا علاج کریں گے بلکہ کشمیر آزاد ہوگا اور بھارت ٹکڑوں میں بٹ جائے گا، کئی دور کی کوڑی لانے والے اِن کے ذریعے روئے زمین پر شریعت نافذ ہوتی دیکھتے رہے۔ غرض جتنی خواہشات کوئی تصور کرسکتا ہے اُن کی تکمیل کے لیے اُمیدیں باندھ لی گئیں۔ جمعیت علمائے اسلام کے دونوں دھڑوں کے جلسوں میں طالبان کے نظام کے نفاذ اور اِن کی کامل فتوحات کے لیے دعائیں مانگی جاتی رہیں، حتی کہ جماعت اسلامی کے ایک امیر نے فرط جذبات میں اِن کے بارے میں جو کچھ کہہ دیا اُس کو یہاں نقل نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ہماری ریاست کا مونڈن کرتے رہے اور ہم اِنہیں گاہے بگاہے سلام پیش کرتے رہے۔

پرویز مشرف دور میں شناخت کا یہ بحران مزید گہرا ہوگیااور قومی ذرائع ابلاغ میںدہشت گردی کے واقعات کے بعدتجزیات اور مباحثوں میں دھند پھیلائی جانے لگی۔ کسی ایک نے بھی یہ محسوس نہ کیا کہ ایک طرف ملکی سربراہ پرویز مشرف کارگل کے ہیروز میں نقد انعامات تقسیم کررہا ہے اور دوسری طرف جب اُس کے اپنے قافلے پر حملہ ہوتا ہے تو جس نے سب سے زیادہ انعام وصول کیا تھا وہی اس حملے کا ماسٹر مائنڈ بن جاتا ہے۔ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے نواز شریف کا تقریر نویس ایک مجاہد کے جہادی کارناموں کی کتاب’آتش و آہن‘ کا دیباچہ لکھتا ہے اور وہی مجاہد قبائلی علاقوں میں پنجابی طالبان کا سربراہ قرار پاتا ہے اور ہمارے فوجیوں کے گلے کاٹنا شروع کردیتا ہے۔ ہمیں بہت بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ کراچی میں مہران بیس پر مہلک حملہ کرنے والے القاعدہ کے جہادی اس لیے حملہ کرتے ہیں کہ کراچی میں ایک طاقت ور ادارے اور القاعدہ کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔ جب سلیم شہزاد کی پسلیاں توڑ کر اس کی لاش کو جہلم کے قریب ایک نہر کے کنارے ڈال دیا گیا تو بعد میں معلوم ہوا کہ بیچارہ سلیم شہزاد اپنی ہی معلومات کی چھری سے ذبح ہوا تھا۔

جب دنیا میں چیخ وپکار کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم نے چالاکی کے ساتھ ’اچھے‘ اور ’برے‘کی مبہم اصطلاح متعارف کروا دی۔ کسی نے بھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ جنہیں ہم نے ’اچھے‘ قرار دیا ’برے‘ ہر وقت اُن کی مدد کرتے رہے اور وہ اِن کی مدد کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ وہ ’برے‘ جو ہمیں ذبح کررہے تھے جب اُن پر ہماری طرف سے کوئی برا وقت آتا وہ فوری طور پر ’اچھوں‘ کی پناہ میں چلے جاتے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جاتے۔ اب ایک مرتبہ پھر تمام اچھے اورہمارے خلاف متحد ہوگئے ہیں کیوں کہ ’اچھوں‘ کے چند اچھے اچھے لیڈر ہماری طرف مارے گئے ہیں۔ ہم جو ہر وقت ’سب اچھا‘ کا ورد کرتے پھرتے ہیں کبھی برے وقت کا نہ اقرار کیا ہے نہ اس کو تسلیم کیا ہے جب کہ ہمارے ایک لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں اور ریاست کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہماری معیشت ٹھپ پڑی ہے کیوں کہ ہم کاروبار اور تجارت کے لیے ناگزیر امن و امان قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ ہم آج تک یہ طے نہیں کرسکے کہ کونسا مسلح گروہ ہمارے لیے اچھا ہے، اور وہ جو اب ہمارے لیے برا بن گیا ہے ہماری طرف سے’اچھے‘ قرار دئیے گئے گروہ اُس کی ہمارے خلاف مدد کیوں کرتے ہیں؟

کوئٹہ میں پچھلے برسوں میں ہزاروں ہزارہ مار دئیے گئے اور اِن مظلوم اموات کے ذمہ داران قرب و جوار میں مراعات سے مستفید ہوتے رہے اور کاروبار ریاست چلتا رہا۔ گلگت ، بشام، پارا چناراور کئی دوسرے شمالی علاقہ جات میں عراق اور شام کی طرح کے شیعہ سنی زون بن گئے جہاں اسلحہ بردار اوپچی دور سے مخالف مسلک کے افراد کا ایمانی نشانہ لیتے ہیں لیکن نہ قومی ذرائع ابلاغ کے کان پر جوں رینگ سکی اور نہ ہی کسی قسم کی ملکی قیادت کو پریشیانی لاحق ہوئی۔ ایسے لاتعداد شواہد اور ثبوت موجود ہیں کہ شمالی علاقہ جات میں فرقہ پرست گروہوں کو بعض طاقت ور اداروں کی طرف سے مدد فراہم کی گئی ہے اور اِنہیں قدم جمانے کا اہل بنا دیا گیا ہے۔ تقریباً اس سے ملتی جلتی مشق ملک بھر میں پوری قوت سے موجود انتہا پسند گروہوں اور تنظیموں کے ساتھ کئی مرتبہ کی گئی ہے۔ صورت حال اس لیے زیادہ تشویشناک ہے کہ ہم تسلیم کرنے اور فیصلہ کرنے میں بہت کمزور واقع ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف دہشت گردوں نے نہ صرف پاکستان اور اس کے عوام کو دشمن قرار دیا ہے بلکہ جب بھی اِنہیں موقع ملتا ہے وہ ریاست اور اس کے عوام کو نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتے۔ ہم جنہیں بیس سال کے عرصے میں اچھی طرح شناخت ہی نہیں کرسکے ہم اِن کے خلاف فیصلہ کن جنگ کس طرح شروع کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments