کوئی امید بر نہیں آتی


دینِ اسلام اور عرب ممالک کی مثالیں دے کر لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں آزاد ہیں۔ عرض یہ ہے کہ پہلے تاریخِ عالم کا مطالعہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ تاریخ میں جھانکنے سے پتا چلتا ہے کہ اْس وقت تمام عرب ممالک میں بنی اسرائیل موجود تھے جو ایک خدا، اْس کے احکام اور شریعت کو مانتے تھے۔ وہاں دوسری اقوام بھی تھیں جو بتوں کی پرستش کرتی تھیں۔ دنیا چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم تھی۔ ہر کوئی اپنی سلطنت بڑھانے کے لئے جنگ و جدل اور ظلم و جبر کا راستہ اپنائے ہوئے تھا۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب بنی اسرائیل نے خدا کی نافرمانی کی خدا نے انہیں سزا کے طور پرغیر اقوام کی غلامی میں دے دیا۔ پھرجب انہوں نے توبہ کی تو خدا نے انہیں بحال کیا۔ یہ گناہ اور توبہ ہی کی کڑی ہے کہ کس طرح حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزاد کرایا۔ اسی دور میں سلطنتِ روم معرضِ وجود میں آئی جس کا راج پوری دنیا پر رہا۔ اور بنی اسرائیل رومی سلطنت میں غلاموں جیسی زندگی گزارتے رہے۔ ایک طرف شہنشاہ اوگستس (قیصر) کی حکومت تھی تو دوسری طرف ہیرودیس کی، جو یہودویوں کا محدود اختیار رکھنے والابادشاہ تھا۔

اْس وقت کا معاشرہ بہت سی لسانی گروہوں میں تقسیم تھا۔ یہودی ان میں اعلیٰ اور سامری حقیر سمجھے جاتے تھے۔ ایسے میں جب یسوع المسیح کا ظہور ہوا، تو مسیحیت کا آغاز ہوا۔ جو محبت، صلح پسند اور امن سے سرشار تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سلطنتِ روم بھی مسیحیت میں بدل گئی۔ روم کے علاوہ تمام عرب ممالک میں مسیحیت تیزی سے پھیل گئی۔ 570 عیسوی میں رسول پاک ﷺنے قریش خاندان میں جنم لیا۔ اور 630 میں اسلام ایک بڑا مذہب بن کر سامنے آیا۔

اس وقت پوری دنیا میں مسیحی مذہب پہلے اور اسلام دوسرے نمبر پر ہے۔ تاریخ صحیح طور پر ہماری رہنمائی نہیں کرتی کہ عرب ممالک میں مسیحیت کیوں زوال پذیر ہوئی۔ یہ بھی سچ ہے کہ مذاہب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر مسیحیوں نے عرب کے ان علاقوں سے ہجرت کرنا شروع کردی تھی، جہاں دین میں جبر ہو رہا تھا۔ انہوں نے عرب کے ان علاقوں کی طرف رخ کر لیا، جہاں انہیں مذہبی آزادی اور بھائی چارے کی فضا ملی۔ اْن عرب ممالک میں آج بھی مسیحی اور مسلم بھائی چارے کی بہترین مثال ملتی ہے۔

موجودہ دور میں بعض عرب ممالک میں اقلیتیں موجود ہی نہیں۔ سعودی عرب میں جہاں چرچ بنانے کی اجازت نہیں تھی، اب ویٹی کن کے ساتھ چرچ بنانے کا معاہدہ طے پایا ہے۔ لہذا پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تناظر میں عرب ممالک کی اقلیتوں کا حوالہ دینا مناسب نہیں ہے۔ یونائیٹڈ نیشنل چارٹر پوری دنیا میں رہنے والی اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں پریشانی کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یورپین یونین کا ادارہ بھی نا صرف اقلیتوں کی فلاح و بہبود اور حقوق کے لئے فنڈنگ کرتا ہے بلکہ مانیٹرنگ بھی کرتا ہے۔ جسے بعض اوقات مولانا حضرات اندرونی مداخلت کا نام بھی دیتے ہیں۔ حالانکہ جن عرب ممالک میں مسیحی موجود ہیں، وہاں کوئی اقلیت کے نام سے آشنا نہیں۔ وہ بہن بھائیوں کی طرح پیار محبت سے رہ رہے ہیں۔ وہاں تبدیلی ِ مذہب کے واقعات سننے میں نہیں آتے۔ عراق و شام جہاں ابتدائی مسیحیوں کی کثیر تعداد آباد تھی، وہاں اسلامک بینک (ISIS) نے مسیحیوں آبادیوں کو تباہ و برباد کر دیا اور ان کی عبادت گاہوں کو شدید نقصان پہنچایا۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مذہبی تعصب سے بالا تر ہو کر مذہبی اقلیت کے سوال کو چھوڑ کر بلا تفریق انسانوں کو جینے کا حق دیں۔ جبراً تبدیلی مذہب اورجبری نکاح جیسے عمل کی کوئی بھی مذہب اجازت نہیں دیتا۔ ایک طرف ہم اقلیتوں کی پاکستان میں مکمل آزادی کا دعویٰ کرتے ہیں تو دوسری طرف قانون اور ہمارے اعمال میں بہت بڑا تضاد ہے۔ جبراً تبدیلیِ مذہب و نکاح کے واقعات آج کی بات نہیں مگر سوشل میڈیا کے مطابق جو اس وقت سب سے زیادہ با خبر ادارہ ہے، اس سال کچھ زیادہ ہی مسیحی کمسن لڑکیو ں کو جبراً تبدیلی مذہب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جب بات حد سے آگے بڑھ گئی۔ تو ہندو بھی کھل کر سامنے آئے، جوغالباً سندھ میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ مسیحی بھی جن کا پاکستان کی تعمیر و ترقی میں بڑا حصہ ہے۔ جبراً تبدیلی مذہب و نکاح کے خلاف احتجاج میں شامل ہیں۔ اس احتجاج میں ہندو کمیونٹی کے رمیش کمار، نند کمار، کرشنا کماری اور دوسرے لیڈر اور مسیحی انسانی حقوق، سوشل جسٹس کی تنظیمیں، سیاسی و سول سوسائٹی کے لیڈر بھی سامنے آئے ہیں۔

صوبائی سطح پر جبراً تبدیلی مذہب و نکاح کے بل کو قانونی شکل دی جانے کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ میرج ایکٹ کے تحت لڑکی کی عمر 18 اور لڑکے کی عمر 16 سال ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ لا علمی کی انتہا ہے کہ لوگ اپنے بچوں کا نادرا کے دفتر میں اندراج نہیں کرواتے۔ ایسے واقعات میں عدالتیں عمر کے ثبوت کے طور پر چرچ یا سکول کے سرٹیفیکٹ کو ترجیح نہیں دیتی اور عدالت ہڈیوں کے ٹیسٹ سے عمر کا تعین کر وا رہی ہے۔

اس کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے، اس پر تبصرہ کرنا مشکل ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر اقلیتوں نے اسلامک آئیڈیالوجی کونسل سے رجوع کیا۔ پی ٹی آئی ہیومن رائٹس پارلیمنٹیرین کمیٹی کی چیئر پرسن شنیلا روت اور رمیش کما ر نے قومی اسمبلی میں جبراً تبدیلی مذہب و نکاح کا بل سیکریٹریٹ میں جمع کر وادیا ہے۔ امید ہے کہ یہ بل جلد قومی اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔ اسی سلسلے میں گزشتہ ماہ اسلام آباد میں ایک سیمینار بھی منعقد ہوا۔ اس میں پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پارلیمنٹری سروس کے سربراہ، اسلامی نظریاتی کونسل، انسانی حقوق، سوشل جسٹس کی تنظیمیں، مسیحی قومی و صوبائی ارکان کے علاوہ سیاسی اور سول سوسائٹی کے لیڈروں نے بھی شرکت کی۔

اسلامک نظریاتی کونسل نے برملا اظہار کیا کہ اسلام میں جبری تبدیلی مذہب و نکاح کی قطعاً اجازت نہیں۔ اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کامیاب سیمینار کے انعقاد کے بعد اسلامک نظریاتی کونسل سے بڑی امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں، کہ وہ جلد اپنی سفارشات حکومت کو پیش کر دے گی۔ ڈس انفارمیشن کا عالم یہ ہے کہ کچھ ایکٹیوسٹ کی جانب سے یہ بھی سننے میں آیا کہ اسلامک نظریاتی کونسل نے اپنی سفارشات حکومت کو پیش کر دی ہیں۔ جس میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ مذہب تبدیل کرنے والے کے لئے ایک سال اسلامی تعلیم لینا لازمی ہو گا۔ جب میں نے اس خبر کی سچائی جاننے کے لئے لاہور میں موجود کچھ دوستوں سے رابطہ کیا جن کے اسلامک نظریاتی کونسل سے قریبی تعلقات ہیں تو اس میں کوئی سچائی سامنے نہیں آئی۔

ہمیں کسی بڑی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بجائے پاکستان میں تمام اقلیتوں اور سیاسی، سماجی و مذہبی لیڈر شپ کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ انفرادی کوشش کی بجائے اجتماعی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ پورے کے پورے معاشرے کی اصلاح ہونے والی ہے۔ جس کے لئے قانون اور قانون پر عمل درآمد کروانے والوں کو سخت ہونا پڑے گا۔ جہاں حکومت کمزور اور مذہبی جماعتیں طاقتور ہوں، وہاں حقوق آسانی سے نہیں ملتے۔ تاریخ کے حقائق کو بھی تروڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ جہاں مستقبل کے مورخ تعصب سے کام لیں، وہاں امیدیں بر نہیں آتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).