مسعود اظہر کی قید اور رہائی کی کہانی


غالباً سال 1996ء میں حکومت جموں و کشمیر نے صحافیوں کو جموں کے نواح میں کوٹ بلوال جیل کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ سلاخوں کے پیچھے لنگڑاتے ہوئے ایک باریش شخص، جیل کی راہداریوں سے گذرتے ہوئے صحافیوں کی طرف ہاتھ ہلا کر ،بار بار اپنی طرف توجہ مرکوز کروانے کی کوشش کر کے کہہ رہا تھا ’’کہ میں بھی ایک صحافی ہوں۔‘‘ مگر شاید ہی کسی نے دھیان دیا۔ کیونکہ صحافیوں کا گروپ کسی مولوی نما صحافی پر وقت صرف کرنے کے بجائے حرکت الانصار کے کمانڈروں ،نصراللہ منصور لنگریال اور سجاد افغانی کو دیکھنے کیلئے بیتاب تھا۔ پست قد اور فربہ بدن کا حامل یہ مولوی کوئی اور نہیں بلکہ جیش محمد کے موجودہ سربراہ مولانا مسعود اظہر تھا۔

اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ 23 سال بعدیہ شخص عالمی سفارت کاری کے پیچ و خم کا محور بن کر اقوام متحدہ کی ترتیب دی گئی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا جائیگا۔ واضح رہے کہ امریکا کے مسلسل مطالبے پر چین اقوام متحدہ کی کمیٹی کی جانب سے مسعود اظہر پر پابندی سے متعلق رکاوٹ سے پیچھے ہٹ گیا۔بھارت 2016 ء سے مسعود اظہر کا نام پابندی کی اس فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔

اس مطالبے نے اس وقت زور پکڑا ، جب رواں سال 14 فروری کو ضلع پلوامہ میں بھارت کی سینٹرل پولیس ریزرو فورس پر حملے کی ذمہ داری جیش محمد نے قبول کی۔بھارت کی درخواست پر فرانس، امریکا اور برطانیہ نے مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد پیش کی تھی ،تاہم 13 مارچ کو چین نے سلامتی کونسل میں مسعود اظہر کے خلاف قرارداد کو ٹیکنیکل اعتراضات لگا کر روک دیا تھا۔ چین کی مخالفت پر امریکا مسعود اظہر کا معاملہ واپس یو این کمیٹی میں لے آیا، جہاں ایک صبر آزما سفارتی تگ و دو کے بعد اسکو بالآخر دہشت گرد قرار دیا گیا۔

بھارت میں انتخابات کی گہما گہمی کے بیچ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ یقیناً وزیر اعظم نریندر مودی کیلئے ایک اہم کامیابی ہے۔ چونکہ مودی نے دیگر ایشوز کو پس پشت ڈال کر انتخابی مہم کو پاکستان کو سبق سکھانے اور دہشت گردی تک ہی مرکوز کر دیا ہے، وہ اس فیصلہ کو انتخابات میں بھر پور طریقے سے بھنا رہے ہیں۔ مسعود اظہر کا دورہ کشمیر ،گرفتاری اور اسکے بعد پیش آئے واقعات کا سلسلہ جنوری 1994ء میں جنوبی کشمیر میں سرگرم ایک اہم کمانڈر نصرا اللہ لنگریال کی گرفتاری سے شروع ہوا تھا۔

اسکو چھڑانے کیلئے ایک اور جید کمانڈر سجاد افغانی نے سرینگر کے الہی باغ علاقہ میں آرمی کیمپ پر دھاوا بو ل کر کمانڈگ آفیسر میجر بھوپندر سنگھ کو اغوا کر دیا۔ وہ اسکے عوض لنگریال کی رہائی چاہتے تھے۔ مگر بھارتی حکام نے منع کردیا۔ چند روز بعد میجر کی لاش جنوبی کشمیر کے کسی دیہات میں پائی گئی۔ افغانی کے اس طرح کے آپریشنز شاید تنظیم کی طویل مدتی پلاننگ کا حصہ نہیں تھے۔

معروف مصنف ایڈرین لیوی کی تحقیق کے مطابق اس خطے میں حرکتہ جہاد اسلامی اور تحریک المجاہدین کے کمانڈر ، حرکتہ اانصار میں تب تک ضم بھی نہیں ہوئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ شمالی کشمیر کی نسبت جنوبی کشمیر میں بھارتی فوجوں کا جماؤ کم تھا، اسلئے اسکیم تھی کہ جنوبی کشمیر کے دور افتادہ علاقوں نیز چناب ویلی کے ڈوڈہ، کشتواڑ اور بھدرواہ و بٹوت وغیرہ علاقوں میںمقامی نوجوانوں کو تربیت و اسلحہ سے لیس کرکے شیروں اور چیتوں کی ایسی فوج تیار ہو، جو فی الحال خفتہ رہے ۔

اس کو بخوبی انجام پذیر پہنچانے کیلئے ضروری تھا کہ اس علاقے میں عسکری کارروائیوں سے گریز کیاجائے۔ تاکہ 1999ء کے کرگل جیسے معرکہ کی صورت میں یہ شیر اور چیتے جاگ کر وادی کشمیر کی واحد شہ رگ جموں۔سرینگر قومی شاہراہ پر بندشیں لگا کر بھارتی فوج کی نقل و حمل کو ناممکن بنالیں۔ مگر کمانڈروں کی آپس کی نااتفاقی اور پھر دیگر عسکری گروپوں حزب المجاہدین کے ساتھ معرکہ آرائی اور افغانی کے بظاہر نڈر اور جان پر کھیلنے والے آپریشنز، طویل مدتی پلاننگ کو ناکام کرنے پر تلے ہوئے تھے۔

ان مسائل کو سلجھانے کیلئے مسعود اظہر کو جنوبی کشمیر میں گراونڈ پر موجود کمانڈروں کو سمجھانے اور معرکوں سے حتی الامکان بچنے کی ہدایت دینے کیلئے بذریعہ ڈھاکہ اور دہلی، سرینگر روانہ کیا گیا۔ فروری 1994ء ایک سرد رات کو جنوبی کشمیر کے متی گنڈ گاوٗں میں مولانا اظہر نے حرکت کے کمانڈروں پرصورت حال واضح کر تے ہوئے، اور انہیں فی الحال ہائی رسک آپریشنز سے باز رہنے کی ہدایت تو دی، مگر خود اگلے روز اسلام آباد (اننت ناگ) کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز و خطاب کرنے کی ٹھانی۔

سجاد افغانی اور ایک مقامی کمانڈر فاروق انیس ان کے ہمراہ تھے۔ راستے میں گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے وہ آٹو رکشہ میں سوار ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مقامی کمانڈر جو آٹو میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا تھا، کی کسی ناکے پر شناخت کی گئی جس کے بعد فوج نے ان کو گھیر لیا۔ فاروق نے فائر کھول کر گھیرا توڑ دیا اور نزدیک ہی جنگل میں گم ہو گیا۔ مگر اظہر اور افغانی کو پکڑ کر کھندرو کے آرمی کیمپ میں لایا گیا۔

مولانا مسعود اظہر کی انٹراگیشن رپورٹ جو بھارتی وزارت داخلہ نے جاری کی ہے، کے مطابق برطانیہ کے ڈربی شائر میں مقیم ایک تاجر حافظ شاہ نے ان کو پرتگیزی پاسپورٹ بنانے میں مدد کی تھی۔ اسپر ان کا نام ولید آدم عیسی ٰ تھا۔ اس انٹروگیشن رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ صومالیہ میں پاکستانی افواج کی موجودگی کے خلاف ایک رائے عامہ بنانے کیلئے انہوں نے تین مقتدر پاکستانی صحافیوں کے ساتھ نیروبی کا دورہ کیا تھا۔ غنیمت ہے کہ ابھی تک بھارت یا امریکہ نے ان صحافیوں کے خلاف مورچہ نہیں کھولا ہے۔

آرمی کیمپ میں افغانی اور اظہر کی ابھی تک شناخت نہیں ہو چکی تھی۔ مگر اظہر کو بچانے کی خاطر افغانی نے ایک داوٗ کھیلا۔ اس نے سپاہیوں کو بتایا کہ وہ ایک انتہائی اہم اطلاع کسی آفیسر کے گوش گذار کرنا چاہتا ہے۔ چند لمحوں کے بعد اسکو ایک کرنل کے روبرو کیا گیا ، جس کے ماتھے پر ایک بڑا ٹیکہ لگا ہو اتھا۔ افغانی نے اس کو کہا ـ ’’ آپ کو مبارک ہو، میں سجاد افغانی کمانڈر ہوں۔ میں نے اس مولوی کو تاوان کیلئے اغوا کیا تھا۔

اسکی دعائیں رنگ لائی ہیں، کہ آپ نے مجھے گرفتار کیا۔ اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ اس اعلان کے بعد تو اس ملٹری کیمپ سے لیکر دہلی تک ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ سرینگر میں مقیم آرمی کی 15ویں کور کے اسوقت کے کمانڈر جنرل سند ر راجن پدمانابھن کے مطابق کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ افغانی ان کے ہاتھ لگ گیا ہے۔

پد مانابھن بعد میں فوج کے سربراہ بھی تھے۔ افسر نے فوراً ہی افغانی کو تفتیشی محکمہ کے سپرد کردیا۔ اگلے تین دن تک شدید ترین انٹر وگیشن کے باوجود سجاد افغانی یہی بیان دہراتا رہا۔ افسران کو بھی شاید اب یقین ہو گیا تھا کہ یہ فربہ مولوی ناحق ہی ان کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ مگر رہائی سے قبل اسکا بیک گراونڈ چیک کرنے کیلئے جب اس کو انٹروگیشن کے کمرے میں لایا گیا، تو ان کے بقول ایک گھنٹے کے اندر ہی اس نے پوری کہانی اگل دی۔

تاہم دسمبر 1999ء تک جب بھارتی فضائیہ کے اغواشدہ طیارے اور اسکے مسافروں کے عوض اس کو قندھار لیجاکر رہا کیا گیا، بھارتی حکام نے اظہر کے خلاف عدالت میں دہشت گردی سے متعلق کوئی کیس دائر نہیں کیا۔ بلکہ احتیاطی گرفتاری قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں رکھا۔ حتیٰ کہ پرتگیزی پاسپورٹ رکھنے کے جرم میں بھی کوئی چارہ جوئی نہیں کی۔ 1994ء اور 1995ء میں مسعود اظہر ، سجاد افغانی اور نصراللہ لنگریال کو قید سے آزاد کرانے کیلئے تین اہم آپریشنز کئے گئے۔

اکتوبر 1994ء کو برطانوی نژاد پاکستانی عمر شیخ سعید نے دہلی میں تین برطانوی اور ایک امریکی شہری کو اغوا کرکے ان کی رہائی کی مانگ کی تھی۔ مگر یہ آپریشن بری طرح ناکام ہوا۔ اسی طرح حرکت کے کمانڈر سکندر نے جنوبی کشمیر میںدو برطانوی شہریوںکو اغوا کیا۔ مگر ان کو جلد ہی چھوڑنا پڑا، کیونکہ ان میں سے ایک دہلی میں مقیم برطانوی صحافی کا بیٹا تھا۔ اس طرح 1995ء ایک غیر معروف تنظیم الفاران نے 6غیر ملکی سیاحوں کو اغوا کیا، جن کا ابھی تک کوئی اتاپتہ نہیں ہے۔

اغو ا کار اظہر اور دو کمانڈروں کی رہائی کی مانگ کر رہے تھے۔ آخر میں دسمبر 1999ء کو انڈین ایئر لائیز کی IC814 اغوا شدہ اڑان کے عوض مسعود اظہر اور عمر شیخ سعید کو رہا ئی ۔ اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے ان کو بذریعہ طیارہ قندھار لے جاکر اغوا کاروں کے حوالے کردیا۔ اس طیارہ کے اغوا کے ایک ماہ قبل ہی سجاد افغانی کا جیل میں گردوں کی خرابی اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا۔

بھارت حکام کے مطابق وہ جیل سے فرار ہونے کی ایک ناکام کوشش میں مارا گیا۔ مگر عینی شاہدین کے مطابق جیل میں ایک ٹنل کی دریافت کے بعد افغانی کو ایک پنجرے میں بند کرکے پانی سے محروم رکھا گیا اور تین د ن بعدتڑپ کر اس نے جان دی۔ حیرت کی بات ہے کہ ا ن سبھی واقعات کا سلسلہ نصراللہ لنگریال کی گرفتاری سے شروع تو ہوا تھا ، مگر قندھار ہائی جیکنگ میں اس کی رہائی کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔

2011ء میں کوٹ بلوال جیل میں 18سال مکمل کرنے کے بعد اسکو قیدیوں کے تبادلہ کے سلسلہ میں پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دلوانے سے مودی شاید انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل تو کرلیں، مگر اس سے کشمیر کی اندرونی صورت حال پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ کشمیر ایک سیاسی پروسیس کا متلاشی ہے۔اِس پروسیس کو کسی اور سیاسی دائرے سے جوڑنانہایت ہی نا مناسب ہے۔ مسعود اظہر کا واقعہ بھی بتاتا ہے کہ کوتاہ مدت کے مقاصد کی آبیاری کیلئے دراز مدت کے اغراض و مقاصد کو قربان کرنا کبھی سود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔وزیر اعظم مودی اور بھارتی حکام کو بھی اس حقیقت کا جتنی جلدی ادراک ہوجائے، اچھا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).